پچھلے کالم میں بودی سرکار کی تمام باتیں نہ لکھ سکا کیونکہ لمبی چوڑی باتیں ہوئی تھیں، بودی سرکار حقے کے کش لگاتے رہے اور گفتگو کرتے رہے۔ کہنے لگے " حضرت علی ؓکا فرمان ہے کہ سب سے ذلیل ترین انسان وہ ہے جسے حق اور سچ کا پتہ ہو اور وہ پھر بھی جھوٹ کے ساتھ کھڑا ہو"۔ میں نے بودی سرکار سے عرض کیا کہ میں تو جھوٹ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا، ہمیشہ سچ کا ساتھ دیتا ہوں۔ اسی لئے میں اشرافیہ کا پسندیدہ نہیں بن سکا۔ میری باتیں سنتے ہی بودی سرکار کا چہرہ سرخ ہو گیا اور وہ جلال میں آ گئے اور کہنے لگے "تم ہر بات کا رخ اپنی طرف کیوں موڑ لیتے ہو، میں نے تمہارے سماج کے ذمہ دار افراد کی بات کی ہے، جن کے پاس مختلف سرکاری عہدے اور ذمہ داریاں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں تمہارے شعبے کے کئی افراد شامل ہیں۔ تم دیکھ نہیں رہے ہو ہر طرف ظلم اور نا انصافی ہے۔ اگر تمہارے معاشرے کے ذمہ دار لوگ سچ کا ساتھ دیتے تو رسوائیوں کا یہ بازار کیوں سجتا، بدنامیوں کا یہ میلہ کیوں لگتا، ہر طرف پابندیوں کا جال کیوں پھینکا جاتا"۔ اچھا چھوڑیں بودی سرکار جی! آپ تو لوگوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، بتائیں آئندہ کیا ہو گا؟ میرا سوال سن کر بودی سرکار خاموش ہو گئے اور حقے کے لمبے کش لینا شروع کر دیئے۔ ایک طویل خاموشی کے بعد میں نے پھر سے عرض کیا کہ حضور! میں نے کچھ پوچھا تھا۔ اب بودی سرکار نے حقہ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا "کس کے پیچھے پڑ گیا ہوں میں؟ تمہیں کیوں تکلیف ہوئی ہے؟ تمہیں ہزار بار کہا ہے ایسے لوگوں کی باتیں مجھ سے نہ کیا کرو۔ پچھتر برسوں سے ایک فیصد طبقہ حکمرانی کر رہا ہے، انہی نے سارا بگاڑ پیدا کر رکھا ہے۔ یہ بارہ سے پندرہ ہزار افراد ملک کو کھوکھلا کر گئے ہیں، یہی ظلم کو رواج دیتے ہیں، یہی جھوٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ملک کی 99 فیصد آبادی تو محکوم ہے۔ عوام پچھتر سالوں سے ظلم و زیادتی برداشت کر رہے ہیں۔ اب ان کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ پہلے میں نے تمہیں آخری موڑ بتایا تھا، آج میں تمہیں اگلا منظر بتاتا ہوں۔ 20 جنوری سے کھیل ایک نئے میدان میں داخل ہو گا۔ فروری میں ایک اور رخ اختیار کرے گا۔ فروری میں عوامی طاقت میدان میں اترتی ہوئی دکھائی دے گی۔ اگلے دو مہینوں میں منظر صاف دکھائی دے گا۔ اگلا منظر عوامی راج کا ہو گا۔ ملک میں 75 سالوں سے جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ ظلم اور نا انصافی کے چراغ بجھ جائیں گے۔ اب جو سویرا ہو گا تو وہ حقیقی سویرا ہو گا، اس میں اقلیت نہیں اکثریت حکمراںہو گی۔ ظلم کا نظام تنکوں کی طرح بہہ جائے گا، یہ نظام نہیں رہے گا۔ اس نظام نے تو لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنایا۔ تم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ اس میں لوگوں کو انصاف مل رہا ہے؟ کیا یہ ظلم کا نظام نہیں؟ کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو اس نظام میں کس طرح قبضہ مافیا لوگوں کی جائیدادیں ہڑپ کرتا ہے۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو اس نظام میں سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اور ملکی وسائل کو لوٹا جا رہا ہے۔ کیا تمہیں پتہ نہیں یہاں حق دار کو حق نہیں مل رہا۔ کیا تم نہیں جانتے ہو یہاں کے بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کے مسائل اور وسائل پاکستانی عوام سے مختلف ہیں۔ کیا اس نظام میں لوگوں کو صحت، تعلیم، رہائش اور خوراک مل رہی ہے۔ کیا یہ نظام طاقتوروں کا نظام نہیں۔کیا تم ان آنکھوں سے نہیں دیکھتے کہ وہاں کی پولیس لوگوں کی خدمت کر رہی ہوتی ہے اور تمہاری پولیس نے جبر کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ تمہارے ملک کی پولیس لوگوں کی خدمت کرنا توہین سمجھتی ہے حالانکہ یہ عوام کے نوکر ہیں۔ کیا ان کا کام لوگوں کو ڈنڈے مارنا، لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارنا اور ظلم و زیادتی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اسی طرح تمہاری سول بیوروکریسی جو پبلک سرونٹس ہیں مگر وہ تو لوگوں پر حکمرانی کرتے ہیں، یہی نا انصافی ہے۔ کیا پاکستان کی جیلوں میں سارے قیدی خطا کار ہیں۔ کیا یہاں جھوٹے مقدمات نہیں بنتے۔ کیا تمہاری عدالتوں میں لوگ انصاف کے لئے دھکے نہیں کھاتے۔ تم آخر میں ایک شعر لکھ کر جان چھڑوا لیتے ہو۔ آج احمد خلیل کی پوری غزل سنو اور لکھو
برملا سوچ کا اظہار نہیں ہو سکتا؟
اب ہر اک شخص تو غدار نہیں ہو سکتا
تو خدا ہے یا اترتے ہیں صحیفے تجھ پر
کیا تری بات کا انکار نہیں ہو سکتا؟
ایک دو ہوں گے تری زلف پریشاں کے اسیر
شہر کا شہر گرفتار نہیں ہو سکتا
دشمن جاں کو کلیجے سے لگا کر رکھے کوئی
ہم سا ملنسار نہیں ہو سکتا
میں کبھی لشکر شبیر میں لڑ نہ بھی سکوں
ان یزیدوں کا طرف دار نہیں ہو سکتا