• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائفر کیس، عمران حکومت کو مشورہ دیا تھا امریکا سے روابط رکھیں، عوامی تلخی سے گریز کریں، سابق سیکریٹری خارجہ

اسلام آباد (انصار عباسی) ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت سائفر کیس میں اپنی گواہی میں سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے عمران خان کابینہ سے کہا تھا کہ سائفر کی رازداری ختم کرنے سے نہ صرف غیر ملکی سفارت کاروں سے تبادلوں کو نقصان ہوگا بلکہ امریکا اور کچھ دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے ساتھ کثیر الجہتی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات بھی پیچیدہ ہو جائیں گے۔ 

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے عمران خان حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ امریکا کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں اور عوامی سطح پر تلخی سے گریز کریں۔ سہیل محمود کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں جو گواہی دی گئی تھی اس کی نقل دی نیوز کے پاس موجود ہے۔ 

اس کے مطابق، سہیل محمود کا کہنا تھا کہ ’’اس مشورے کا مقصد پاکستان کے ایک اہم ملک کے ساتھ تعلقات کو بچانا اور ایک خفیہ دستاویز کے حوالے سے عوامی اور سیاسی نوعیت کے مباحثے سے گریز کرنا تھا۔‘‘ سابق سیکریٹری خارجہ نے کابینہ اجلاس کی تفصیلات بھی شیئر کیں، یہ اجلاس ’’سائفر ٹیلی گرام کی رازداری ختم کرنے‘‘ کے معاملے پر بحث کیلئے بلایا گیا تھا اور ایک علیحدہ اجلاس اُس وقت کے وزیراعظم کی بنی گالا میں رہائش گاہ پر منعقد ہوا تھا۔ 

سہیل محمود کا کہنا تھا کہ 8؍ اپریل کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں انہوں نے اس بات پر ضرورت دیا کہ سائفر ٹیلی گرام کی رازداری ختم کرنا ممکن ہے اور نہ ایسا کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے کیونکہ سائفر کے ساتھ سیکورٹی گائیڈ لائنز جڑی ہیں اور ساتھ ہی قانونی معاملات اور خاجہ پالیسی کے مضمرات بھی ہوں گے۔ 

انہوں نے کابینہ کو یہ بھی بتایا کہ سائفر کی رازداری ختم کرنے کیلئے ماضی میں کوئی نظیر ملتی ہے اور نہ ایسا کرنے کیلئے کوئی قانونی شق موجود ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مواد کی رازداری ختم کرنے کے نتیجے میں سائفر کمیونی کیشن سسٹم کو نقصان ہوگا۔ ’’میں نے یہ بھی بتایا کہ اس کے نتیجے میں سفارت خانوں اور وزارت کے کام کرنے کا انداز بھی متاثر ہوگا کیونکہ غیر ملکی سفارت کاروں کے ساتھ رازداری کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں اعتماد اور بھروسے کو نقصان ہو سکتا ہے۔ 

اس سے نہ صرف امریکا اور کچھ دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے بلکہ امریکا کے ساتھ کشیدہ تعلقات کثیر الجہتی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات بھی پیچیدہ کر دیں گے۔‘‘ ٹرائل کورٹ میں دیے گئے بیان میں سہیل محمود نے کہا، ’’طویل مشاورت کے بعد کابینہ نے یہ فیصلہ کیا کہ پارلیمنٹ میں سائفر ٹیلی گرام کی نمایاں خصوصیات اور اس کے مستند ہونے کے حوالے سے وزارت خارجہ کی جانب سے ان کیمرا بریفنگ دی جائے گی۔‘‘ 

سابق سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ ’’27؍ مارچ 2022 کو ایک عوامی اجتماع میں سابق وزیراعظم عمران احمد خان نیازی نے ایک خط لہرایا، 28؍ مارچ 2022ء کو مجھے ہمارے ایڈیشنل سیکرٹری امریکا کی طرف سے ایک نوٹ موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ ان سے امریکا کے چارج ڈی افیئرز (ناظم الامور) نے رابطہ کرکے وزیر اعظم کے عوامی بیان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ 

یہ نوٹ اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھیجتے ہوئے، میں نے مشورہ دیا کہ امریکا کے ساتھ بات چیت جاری رکھنا اور عوامی سطح پر تلخی سے گریز کرنا سمجھداری ہوگی۔ اس مشورے کا مقصد اہم ملک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بچانا اور خفیہ رابطہ کاری پر عوامی اور سیاسی بحث سے گریز کرنا تھا۔ 

28؍ مارچ 2022ء کو دوپہر کے قریب مجھے ملاقات کیلئے فوری طور پر بنی گالہ پہنچنے کا فون آیا۔ یہ پہلے سے طے شدہ میٹنگ نہیں تھی اور مختصر نوٹس پر بلائی گئی تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اس میٹنگ میں کون شرکت کرے گا۔ میں نے دیکھا کہ وزیراعظم عمران خان کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ایس پی ایم اعظم خان بھی موجود تھے۔ 

مجھے ایک ٹیلی گرام دیا گیا جو اس دن کی شروعات میں وزیر خارجہ آفس کو اس کی درخواست پر فراہم کیا گیا تھا۔ مجھے یہ ٹیلی گرام پڑھنے کیلئے کہا گیا۔ اس دوران اجلاس کے دیگر شرکاء نے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری کے ساتھ ہونے والی گفتگو پر تبصرہ کیا۔ میٹنگ مختصر تھی اور بغیر کسی فیصلے یا نتیجے کے ختم ہو گئی۔‘‘

سائفر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کی نقل سیکریٹری ٹوُ پی ایم (ایس پی ایم اعظم خان) کو 8؍ مارچ 2022ء کو بھیجی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب 29؍ ستمبر 2022ء کو وہ ریٹائر ہوئے تو اعظم خان کو فراہم کردہ سائفر کی نقل وزارت خارجہ کو واپس نہیں کی گئی۔ 

انہوں نے کہا، ’’مارچ میں ایک موقع پر ایس پی ایم نے غیر رسمی طور پر مجھ سے بات چیت میں کہا کہ وزیراعظم کو اپنے کاغذات میں سائفر ٹیلی گرام کی نقل مل نہیں رہی اور کیا اس کی دوسری نقل فراہم کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ جو نقل فراہم کی گئی تھی اس پر نمبر درج تھا لہٰذا اسے تلاش کیا جائے۔‘‘

اہم خبریں سے مزید