• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران کے سائفر لہرانے پر اگلے روز امریکا نے رابطہ کیا، واشنگٹن کو اچھا پیغام نہیں گیا، سابق ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ

فیصل ترمذی اس وقت متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر ہیں۔
فیصل ترمذی اس وقت متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر ہیں۔

اسلام آباد (عمر چیمہ)27؍ مارچ 2022ء کو پریڈ گراؤنڈ میں ہونے والے عوامی جلسے میں عمران خان کی جانب سے سائفر لہرائے جانے کے بعد امریکی سفیر نے اس کی کاپی طلب کی تھی تاہم شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ کو روک دیا تھا کہ اس کی کاپی امریکی سفیر کے ساتھ شیئر نہ کی جائے۔ 

ٹرائل کورٹ میں دیے گئے اپنے بیان میں امریکا میں متعین پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے سائفر واقعہ کو پاک امریکا تعلقات کیلئے ایک دھچکا قرار دیا تھا اور ساتھ ہی اس کے مستقبل میں سفارتی رپورٹنگ کلچر پر منفی اثرات مرتب ہوئے تھے، جبکہ سابق ایڈیشنل سیکریٹری فیصل نیاز ترمذی نے یہ واقعہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ سائفر دستاویز کو سیاست زدہ بنانے پر امریکا نے کس طرح کے رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ 

فیصل ترمذی اس وقت متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر ہیں۔ ٹرائل کورٹ میں اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اس وقت کی امریکا کی ناظم الامور انجیلا ایگلر نے انہیں ایک واٹس ایپ میسج بھیج کر پوچھا تھا کہ انہیں وہ دستاویز چاہئے جو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے لہرا کر دکھایا اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام امریکا پر عائد کیا۔ 

فیصل ترمذی اس وقت وزارت خارجہ میں امریکا کے ساتھ معاملات سے ڈیل کرنے کیلئے ایڈیشنل سیکرٹری تھے۔ عدالت میں دیے گئے اپنے بیان میں فیصل ترمذی کا مزید کہنا تھا کہ امریکی ناظم الامور نے اپنے میسج میں مزید کہا تھا کہ اس صورتحال کو امریکا میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ 

فیصل ترمذی نے اپنے بیان میں کہا کہ اس کے بعد انہوں نے امریکی سفارت کار کا پیغام اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھیجا۔ اس کے بعد فوری طور پر وزیر خارجہ نے فون کال کرکے کہا کہ سائفر پیغام کو امریکی ناظم الامور کے ساتھ شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سب 27؍ مارچ کو اسی دن ہوا جس نے عمران خان نے جلسے میں سائفر لہرا کر دکھایا۔ 

تین دن بعد، انہیں کابینہ کو بریف کرنے کیلئے طلب کیا گیا کیونکہ وزیر خارجہ اور سیکریٹری خارجہ پاکستان سے باہر تھے۔ ایک بار ایسا کرنے کے بعد، فیصل سے کہا گیا کہ وہ قائم مقام امریکی چارج ڈی افیئرز رچرڈ شیلسر کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت پر ایک ڈیمارش دیں اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ فیصل کا کردار امریکی سفارت خانے سے واٹس ایپ پیغامات وصول کرنے، وزارت خارجہ کے اعلیٰ افسران تک پہنچانے اور بعد میں اپنے باسز کی غیر موجودگی میں کابینہ کے اجلاس میں پیش ہونے تک محدود تھا۔  

جہاں تک اسد مجید کا تعلق ہے تو انہوں نے ٹرائل کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے ڈونلڈ لُو کیلئے جو ورکنگ لنچ دیا وہ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ پاکستانی سفارت خانے کے نائب سربراہ، دفاعی اتاشی اور پولیٹیکل قونصلر بھی اس موقع پر موجود تھے۔ دونوں فریقوں کو معلوم تھا کہ ملاقات کے اہم نکات لکھے جا رہے تھے۔

اسد نے اپنی گواہی میں اسلام آباد کو ’’دھمکی‘‘ یا ’’سازش‘‘ کا لفظ استعمال کیے بغیر، گفتگو میرے ذریعے بیان کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے دھمکی یا سازش کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ یہ اسلام آباد میں قیادت کی طرف سے اخذ کیا گیا ایک سیاسی نتیجہ تھا۔‘‘ 

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ مواصلات سیکرٹری خارجہ کے نام بھیجی گئی تھی، جنہوں نے اپنی اہلیت کے مطابق تمام متعلقہ افراد کے ساتھ شیئر کی۔ قومی سلامتی کونسل اور وزارت خارجہ دونوں اپنی علیحدہ اجلاسوں میں اس نتیجے پر پہنچے کہ کوئی سازش نہیں تھی۔ 

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’سائفر واقعہ پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات کیلئے ایک دھچکا تھا اور اس کے مستقبل کی سفارتی رپورٹنگ پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔‘‘

اہم خبریں سے مزید