کرئہ ارض پر اگر جانداروں کے ارتقاء کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان کا ارتقائی سفر کی داستان بڑی منفرد اور دلچسپ ہے ہر گروپ کسی نہ کسی دوسرے گروپ کے ساتھ ارتقائی لحاظ سے کوئی نہ کوئی مناسبت رکھتا ہے۔ تاہم، حشرات کا ارتقائی سفر بھی کئی طرح کی پیچیدگیوں کے ساتھ کئی دلچسپ حقائق کی بھی نشاندہی کرتا ہے جو اس کو بہت ہی قدیم ترین گروپ کے ساتھ ملاپ کرواتی ہے۔ تاہم، مطالعے کی کمی کے باعث لوگ اس ارتقائی عمل کو سمجھنے سے اب تک ناآشنا ہیں۔ قدیم ارتقائی رپورٹ کے مطابق زمین پر موجود قدیم ترین جاندار کی شناخت تقریباً 700ملین سال پہلے ہوئی تھی اور ہمارے سیارے پر سب سے قدیم جاندار کے خدوخال جیلی فش سے مشابہ رکھتے ہیں۔
مزید تفصیلی رپورٹ سے یہ آشنا ہوا ہے کہ یہ حشرات کی ایک خاص قسم سلور فش سے مشابہ ہے اور اس کے بقایات تقریباً 385ملین سال پہلے ہی اس کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں، جس کو تاریخ میں’’ پنسلوانیا‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ فائیلوجنیٹک اعداد و شمار کے مطابق حشرات کا پہلا گروپ تقریباً 497ملین سال قدیم ڈیووینس دور میں نمودار ہوا اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بقایات ڈائنوسار اور دیگر جانداروں سے بھی قدیم ترین ہیں۔ دراصل ارتقاء پیچیدہ عمل کا ایک مجموعہ ہے، جس کے ذریعے حیاتیات کی آبادی وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے ارتقاء کے نتیجے میں جنیاتی مدافعت ہوئی ہے جو حیاتیات کو نہ صرف زندہ رکھتی ہے بلکہ اس میں پائے جانے والے تعلقات کو بھی سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
ارتقائی عمل میں مزید پیش رفت ہونے کے ساتھ ساتھ 1900ء میں بھی سائنس دانوں نے سب سے پہلے لینڈ میں اس کا ایک ایسا فوسل ریکارڈ کیا جو کہ اب تک دریافت ہونے والے فوسل ریکارڈ میں سب سے پرانا تصور کیا جاتا ہے۔ یہ دراصل حشرات کے فوسل ریکارڈ کم ملنے کی سب سے بڑی وجہ ان کے جسامت کو نرم و نازک ہونے کے باعث ان کی دیرپا (Preservation)ممکن نہیں ہوتی ہے۔ بعد میں یہ فوسل ریکارڈ بنانے میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں۔ تاہم ،کچھ حشرات کی بقایات عنسبر سے دریافت ہوئی ہیں۔ عنسبر دراصل ایک ایسا مادّہ ہے جو درخت سے نکلتا ہے یہ گوند کی طرح چپکتا ہے اور جب حشرہ اس میں پھیل جائے تو عنسبر کے خشک ہونے پر یہ اس میں محفوظ ہو جاتا ہے اور پھر کئی صدیوں تک یہ ایک بہترین فوسل ریکارڈ رہ سکتا ہے۔
اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو حشرات کا ارتقائی ریکارڈ تقریباً 400ملین سال جوکہ ڈیووینس پر پڑتھااس پر محیط ہے جب کہ (Pterygota)(پروں والے حشرات) کا ربونیزنس ٹائم میں ایک بہت بڑی تابکاری متاثر ہوئے اور اُن میں سے کچھ معدومیت سے بچنے میں کامیاب ہو سکے۔اس کو پھر Triassic وقت میں پھلنے پھولنے کا مواقع ملا اور آج ہم کو Insecta کے نام سے جانتے ہیں۔ تو یہ کہنا بجا ہو گا کہ زیادہ تر حشرات جراسک میں نمودار ہوئے جن میں نمایاں کامیابی گروپ گریٹاسیٹس میں واقع ہوئی اور گریٹاسیٹس آج بھی نمایاں نمبر کے ساتھ موجود ہیں۔
حشرات میں ارتقاء دراصل کئی طرح کی ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے خاص کر ان کا افزائش نسل کا زیادہ ہونا اور پھر موسمی تبدیلیوں کا باعث ان میں معدومیت کا کم یا زیادہ ہونا، حشرات کا ارتقاء پھولوں والے پودوں کے ارتقاء کے ساتھ بھی بڑا گہرا تعلق بناتا ہے، کیوں کہ عموماً حشرات اپنی خوراک کے لیے تقریباً 20 فی صد تک ان ہی پھولوں والے پودوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح یہ باہمی رفقاکاری تھے پودوں اور حشرات دونوں کو ارتقائی عمل میں کئی تبدیلیوں کو ایک ساتھ اپناتے بھی دیکھا گیا ہے۔
اس طرح کئی طرح کے حشرات سمالیہ گروپ کو بھی متاثر کرنے میں ان کی آبادی کو ختم کرنے میں کئی ادوار میں بڑا نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان میں مچھر اور مکھیاں جو کہ کچھ خاص قسم کے پتھوجینز (pathogen) کے ویکٹرز تصور کئے جاتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ یہ ممالیہ کی نایاب سکوک کے خاتمے یا ناپید کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ مورخین کا قیاس ہے کہ یہ فابسپرم ملیریا یا انسانوں میں ملیریا کی سب سے مہلک قسم ہے اور یہ ہی مہلک قسم 79AD روم کی تباہی کا باعث بنی، جس میں نہ صرف انسانی جانوں کا زیاں ہوا بلکہ زراعت بھی بری طرح متاثر ہوئی اور یہ تاریخ کا بدترین سانحہ تصور کیا جاتا ہے۔
اس طرح افریقا میں ٹرہسینو سومیاس جیسے (سونے) نیند کی بیماری بھی کہا جاتا ہے جو کہ ایک خاص طفیلی مکھی جس کو Tse tse کہا جاتا ہے ،اس کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ اس کی علامات میں تھکاوٹ، تیز بخار، سردرد اور پٹھوں میں درد شامل ہے اور بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے اور اس طرح کئی اموات رپورٹ ہو چکی ہیں۔ تاہم جدید دنیا میں مالیکیولر پر تجربے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ سلورین دور میں ہکسایوٹن اپنے گروپ جھینگے (shrimps) سے قدرے ہٹ گئے ہیں ۔یہ تجزیہ ان کی قریبی رفاقت کو 440ملین سال پہلے کا ہے۔
جب دنیا میں وسکولر پودوں کی موجودگی کا ارتقاء ہوا توڈیووینس تقریباً 419سال پہلے ایک گرم دُور تصور کیا جاتا ہے۔ شاید اس میں گلیشئر کی کمی تھی یہ ہی وجہ تھی کہ اس دور میں حشرات کے فوسل ریکارڈ کی تفصیل کچھ خاص معلومات کا باعث نہ بن پائی۔ اس دور میں جن حشرات کو فوسل ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔ ان میں رہنیوگناتھربرمٹی اور اسٹروڈیلا ڈیووینکا کا دوبارہ مطالعاتی تجزیہ ان کی مکمل وابستگی کو نمایاں اور سمجھنے میں نہ کافی ہے۔
تاہم ،فائیلوجنیٹک مطالعہ کی بنیاد پر حشرات سلورین دور میں تنازیوس ڈوکیروں جوکہ اپنا دوسرا انٹینا کھو چکے تھے ان کی شناخت سامنے آئی اس طرح کا ربونفرنس میں پروں والے حشرات کی ایک بڑی تعداد کی ظاہری شکل کے پیش نظر ڈیووینسن میں پہلا حشرہ ممکنہ طور پر سامنے آیا۔ کاربونفسرس جو کہ تقریباً (359-299)کی تاریخی اطوار پر مشتمل ہے ۔یہ دور گرم آب و ہوا سے جانا جاتا ہے۔ بس میں کائی، فرنز، ہارسٹیل اور کیلامائسٹس کے شواہد ملتے ہیں کاربونفسرس دور میں آب و ہوا کی ٹھنڈک اور خشک ہونے کی وجہ سے اس دور میں بارش جنگلات CRLکا خاتمہ ہوا۔
موسلادھار بارش سے جنگلات بکھر گئے اور حشرات کی زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ کہا جاتا ہے کہ فوسل ریکارڈ میں جہاں حشرات کے بقایات کے شواہد ملتے ہیں وہاں پر حشرات کے باقیات کوئلے کے ذخائر میں بھی پھیلے ہوئے ہیں خاص کر پراسٹیم ڈکیسوٹران (بلاٹوبیڑا) وغیرہ شامل ہیں۔ اس طرح قدیم ترین حشرات جوکہ پروں پر مشتمل تھی اور ان کو Pterygotaکے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جن میں خاص کر بلاٹوبیڑا، کالونیوڈیا Ephemeroptera، Orthoptera اور Palaeodictypteroidea شامل ہیں۔
اس طرح Juvenile حشرات کا تصور بھی کارلونفسرس دور میں ملتا ہے۔ برمین (299-252) جس کو ایک مختصر ٹائم پیریڈ کہا جاتا ہے۔ اس دوران زمینی عوام کو ایک واحد براعظم میں جمع کیا گیا۔ جیسے Pangaea کہا جاتا ہے۔ یہ Pangea دراصل خط استوا کو گھیرے ہوئے ہے وہ جب مختلف قطبوں کی طرف بڑھا تو اس کے اثر سے سینتھلااسٹا جو کہ اشیاء اور گونڈواتا کے درمیان تھا۔ اس طرح پھیلاؤ سے سمیریا براعظم گونڈوانا سے ہٹ کر شمال کی طرف بڑھ گیا ،جس کی وجہ سے ہیوسٹتھیس سکڑ گیا اور بدقسمتی سے حشرات کی تقریباً 30 فی صد نادر نایاب اقسام معدومیت کا شکار ہو گئیں یہ تاریخی ادوار میں حشرات کی معدومیت کا بدترین دور تصور کیا جاتا ہے۔
تاہم، موجودہ دور میں مالیکیولر تجزیہ نے حشرات کے ارتقائی عمل کو سمجھنے میں خاطر خواہ راہ ہموار کردی ہے اور کئی طرح نے پیچیدہ اور معدومیت سے دوچار حشرات کے نمونوں کو لے کر امن کا ارتقائی تجزیہ کا پتہ چلتا ہے کہ اگر بیٹل کے ڈی این اے کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی موجودگی کی ابتدائی شواہد 299 ملین سال پرانے ہیں ماذون کریک کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی ابتدائی محقق کے شواہد اشیاء اور یورپ سے ملے، اس طرح اس نوع کے کئی فوسل ریکارڈ اوبودا، چیک ری پبلک اور شیکردا میں پودال پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ روس میں بھی پائے گئے تھے۔
یہ تجزیہ اس نوع کی جغرافیائی حدود کا بھی تعین کرتا ہے۔ تاہم، اس میں مزید بیش رفت شمالی امریکا کے سائنسدانوں نے ویلنگٹس فارمیشن آف اوکارا ہوما میں کی اور نتائج 2008-2005کے عرصے میں منظر عام پر لائے گئے، اس دور میں سب سے اہم فوسل ریکارڈ کے ذخائر ایلموکنساس (260ya) سے منسلک ہیں۔ جبکہ دیگر میں نیو ساؤتھ ویلز آسٹریلیا (240Mya)اور وسطی یورشیا (250Mya)فوسل ریکارڈ بھی شامل ہیں جوکہ اس نوع کی جغرافیائی حدود کے ساتھ ساتھ اس کا دوسری انواع کے ساتھ تعلق بھی بناتی ہے۔
تاہم، سب سے قدیم حشرہ جوکہ آوڈرکویوبیٹرا کی نوع سے بڑی قریبی مشابہت رکھتا ہے، اس کی تاریخی ارتقائی کا سفری شواہد لوئرپرہن270ملین سال پرانے تصور کئے جاتے ہیں۔ تاہم، اس میں Antenna تعداد 13ریکارڈ کی گئی ہے۔ جب کہ قدیم نوع میں اس کی تعداد 11تھی۔
اس نوع میں ایلٹر مکمل اور زیادہ فاسد طول بلابسیوں کے ساتھ ایک بیٹ اور ہضوی اس سے آگے کی طرف پھیلا ہوا ہے جب کہ اس سے قدیم نوع میں یہ 11 انٹینا Segmentsکے ساتھ ایلسٹر پر باقاعدہ طولائی ہسیلوں کا ہونا اور اس کا پھیلائو قدرے تنگ تھا جوکہ ان دونوں بٹیلز میں خاطرخواہ تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ارتقائی عمل میں جاندار میں کئی طرح کی تبدیلیوں نے ظاہری خدوخال میں وقوع پذیر ہوئی ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جاندار ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس طرح Raphiodoptera کے خاندان کو بھی ارتقائی لحاظ سے کافی متنازعہ عوامل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگر اس گروپ میں ایک باقاعدہ تربیت کے ساتھ لمبا Ovipositor تھا اور کراس وینز کا ایک باقاعدہ سلسلہ تھا ۔تاہم، دوسرے قریبی گروپ میں یہ اس ترتیب سے موجود نہیں تھی یہ ہی وجہ تھی کہ ارتقائی عوامل میں قریبی گروپ کو ترتیب دینا بہت دشوار عمل ہے۔
ڈبیٹرا کی ایک نوع کی پروں کی لمبائی تقریباً 10ملی میٹر تک ریکارڈ کی گئی جو کہ ابتدائی نوع سے زیادہ تھی ابتدائی نوع میں یہ 2 تا 6 ملی میٹر تھی یہ نادر نوع آسٹریلیا کے مائونٹ کروسی میں پائی گئی ۔ اگر نمونوں کی Sequencing صحیح طریقے سے کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ جراسک کے دوران Coleoptera انواع میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور یہ ڈرامائی تعداد میں اضافہ کی وجہ حشرات کا گوشت خور اور سبزی خور دونوں ہونا شامل ہے۔
سپر فیملی Chrysomelidaeکی انواع ایک ہی وقت میں تیار ہوئیں جن میں Host plants کی وافر فروانگی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں کو مثبت ہونا بھی ان انواع کی افزائش کا باعث بنا Coleopteraکی کئی اقسام کی پسندیدہ خوراک پھول دار پودے اور جسنواسپرم تھے۔ جوکہ ان کی نشوونما کو بہتر بناتے تھے۔ کرسٹیاسٹین کے دوران Capedidae اور Archostemataکے تنوع میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔
خاص کر Predatoryزمینی شیل اور Roveبیٹلزکی مختلف انواع کاتنزلی کا شکار ہوئی ان کی اہم وجہ شاید درجۂ حرارت کا بڑھ جانا بھی شامل ہے اور یہ انواع دوسرے علاقوں میں ہجرت کرنے لگی، جس کی وجہ سے ان کی آبادی میں بھی بہت کمی ہوئی۔ اس طرح CleridaeاورCucuyoidaeکی کئی اقسام نے اپنا شکار درختوں کے چھال میں جیول بیٹلز کے ساتھ کیا کریٹاسٹس کے دوران جیول بیٹلز کی آبادی اور تنوع میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ،کیوں کہ وہ عموماً لکڑی کے معاونین تھے اور وہ انہیں میسر تھی۔ جب کہ اس کے مقابلے میں سپراماسٹیرا لانگ ہارن بیٹلز بہت کم تھے اور ان کی تنوع صرف بالائی کریٹاسیٹس کے اختتام تک تھا۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پہلی Coposphagous بیٹلز کو اپر کریٹاسیٹس سے ریکارڈ کیا گیا جوکہ سبزی خور ڈائنوسار کے اخراج پر رہتے تھے۔ تاہم، یہ معمہ حل نہ ہو سکا کہ آیا بٹلز کو نئی نشوونما کے لیے ہمیشہ ممالیہ گروپ سے ہی کیوں جوڑا جاتا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی جائزہ لینے پر یہ راز بھی آشنا ہوتا ہے کہ ابتدائی طور پر دونوں لاودا اور بالغ آبی زندگی کے موافق ہوئے تھے۔Whirligigبٹلز اور Gryinidae معتدل متنوع تھے حالاں کہ دوسرا انواع بہت کم تعداد میں تھی سب سے زیادہ نمایاں نمبر کے ساتھ Coptoclavidae کی نسل تھی جو عموماً آبی مکھی کا شکار کرتی ہے اور تعداد میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ارتقائی عمل کا جائزہ لینے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ بٹلز کی کئی انواع زمانہ قدیم کے ہر دور میں موجود رہی ہیں۔ تاہم، ان کی جغرافیائی حدود اور تعداد میں کمی یا اضافہ اس دور کی موافقت سے رہا ہے ۔ان کی اقسام اور تعداد کئی خطوں میں مختلف تھی ہنسوجین کے بٹلز فوسلز کے لیے سب سے اہم مقامات گرم اور معتدل اور ذیلی ٹرائیکل زونز میں واقع ہے۔
متعدد حصوں ماڈل مفروضوں انسانی تعصبات اور ارتقائی طریقہ کار کے بارے میں ہماری نامکمل تقسیم سے پیدا ہونے والے مسائل بھی چیلنجز کا باعث بنتے ہیں۔ ان رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے ٹیکنالوجی میں پیش رفت وسیع تر ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد تجرباتی طریقوں اور فائیلوجنیٹک تعمیر نو کی درستگی کو بڑھانے کے لیے مفروضوں کی مسلسل ضرورت ہے۔ اس طرح پسماندہ ممالک میں فائیلوجنی کی تیکنیکوں تک رسائی کی کمی کا بڑا فقدان ہے، ان کے سافٹ وئیر اورDNA Sequencing کے لیے بروقت سہولیات کا نہ ہونا اور بنیادی ضرورت اور آلات کا فقدان یہ وقت کے اہم ترین چیلنجوں میں سے ایک چیلنج ہے۔ یہ حیاتیاتی تنوع کے لیے ان کے تحفظ کو محدود کرتا ہے۔
جو خطرے سے دوچار انواع اور ان کے تحفظ کے لیے بروقت کام نہیں کر پاتے اور فائیلوجنیٹک لڈلز کی عدم دستیابی کے باعث ان کے بروقت تحقیق کرنے اور نتائج منظر ِعام پر لانے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔اس فرق کو پورا کرنے کے لئے بین الاقوامی تعاون اور ٹیکنالوجی کی منتقلی اور سائنسی انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ،تاکہ تعاون سے ان خطوں کو مؤثر فائیلوجنیٹک تحقیق اور اس کے اطلاق کے لیے ضروری آلات اور علم کے ساتھ بااختیار بنایا جاسکے۔