• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: سلیم احمد فریدی
ووٹ ایک امانت ہے اور اس کا صحیح استعمال اسلامی فریضہ ہے۔ اس اسلامی ذمہ داری کو مفاد پرستی، خود سری کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے ملک پاکستان میں حالات دن بدن بدتر ہوتے جا رہے ہیں انتخابات میں ووٹ استعمال کرتے وقت اس کو خالص دنیاوی معاملہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ووٹ ایک امانت ہے اور اس کا صحیح استعمال دینی فریضہ ہے۔ اگر اہلِ وطن اس دینی امانت اور اسلامی فریضہ کی ادائیگی میں ہمیشہ کی طرح سستی اور کاہلی برتتے رہے تو ملک کا کوئی طبقہ محفوظ نہیں رہے گا۔ اہل وطن کی یہ روش جو ملک میں چل پڑی ہے، اگر یکسر تبدیل نہیں کی گئی تو ملک سے بد امنی ، غربت و افلاس، بے روزگاری کا خاتمہ نا ممکن ہوگا۔ جس طرح الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کواللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی روشنی میں صاف شفاف رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے تو ساتھ ساتھ امیدواروں کے صاف شفاف ہونے کی ذمہ داری کا احساس بھی پوری تندہی سے اداکرے۔ الیکشن کمیشن سے زیادہ ذمہ داری عوامی ووٹروں کی ہے کہ وہ ووٹ کو امانت اور اسلامی ذمہ داری کے طور پر استعمال کریں۔اکثر و بیشتر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ انتخابات کے شروع ہوتے ہی غریب عوام جومہنگائی، غربت، بے روزگاری کی ماری ہوئی ہے، اور مفاد پرست لوگ اس وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے لیڈروں ، پارٹیوں اور ان کے دلالوں سے کچھ وصول کرنے کے لئے دوڑیں لگانے لگ جاتے ہیں۔ بے حسی ، مفاد پرستی اور ضمیر کی کمزوری بلکہ ضمیر فروشی کا ثبوت دیتے ہوئے اور ملک کی بقاء کو دائو پر لگاتے ہوئے اپنی عزت نفس اور اپنے بڑوں کے ناموس کو پس پشت ڈال کر یہ سوداگرنام نہادچھوٹے بڑے بیوپاریوں، وڈیروں، جاگیر داروں کے دروازے کھٹکھٹانے لگ جاتے ہیں۔ آج کل تو یہ بھی دیکھنےمیں آرہا ہے کہ کچھ پارٹی کے لوگ ووٹروں کو پیسے دےرہے ہیں اور ان سے حلف لے رہے ہیں کہ وہ ووٹ انکی پارٹی ہی کو دیں۔ بلکہ یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ الیکشن کے جلسہ کے لیے بھی لوگوں کو لالچ دیا جاتا ہےان کو کچھ رقم اور بریانی وغیرہ بھی دی جاتی ہے۔ ہر ایک امیدوار نے بھی اوربعض ووٹروں نے بھی اپنے مفاد کو سب کچھ سمجھا ہوتا ہے، اور ان کے مد نظر چل کی خیر کل کی کی خیر ہوتی ہے۔ ووٹ استعمال کرنے کا مقصد ایسے باکردار لوگوں کو منتخب کرنا ہوتا ہے جو ملک کے خیر خواہ ہوں ، ملکی مفاد، ملک کی بقاء اور استحکام کا درد رکھنے والے ہوںاور نفاذِ شریعت ان کی اولین ترجیح ہو، نہ کہ ایسے آدمی کو منتخب کریں کہ جن کا نظریہ اور مشن صرف اور صرف اپنی تجوریاں بھرنا ہو،نیزیہ بھی ضروری ہے کہ امیدوار اللہ ا و رسولؐ کے دین کا باغی اور منکر بھی نہ ہو۔ ووٹ کا استعمال ہم مسلمان اس امیدوار کے حق میں کریں گے جو صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو ، نشہ آور اشیاء کا عادی نہ ہو، جواری اور سود خور نہ ہو، پاکستان کو جسے لاکھوں مسلمانوں نے جان، مال اور عزتوں کی قربانی دے کر اسلامی نظامِ حکومت ، نظامِ معیشت، نظامِ عدالت کے لئے حاصل کیا تھا۔ووٹ ایک شرعی شہادت ہےاور نمائندہ کے حق میں شہادت ہے۔ اور ہر اکیس سالہ شہادت کا اہل نہیں ہوتا، شہادت کے لئے صرف بالغ ہونا کافی نہیں، بلکہ جھوٹ کا عادی نہ ہونا بھی ضروری ہے یا خوفِ خدا کی وجہ سے جس کی علامت کم از کم صوم و صلوٰۃ کی پابندی ہے۔قرآن و حدیث کی چند حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے، اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور دیانت اور امانت بھی۔ اور اگر واقع میں اس شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں اور ووٹر یہ جانتے ہوئے اس کو ووٹ دیتا ہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے ، جو سخت کبیرہ گناہ اور وبالِ دنیا و آخرت ہے ۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں رسول کریم ا ﷺنے شہادت کاذبہ کو شرک کے ساتھ کبائر میں شمار فرمایا ہے ۔ دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتاہے۔ اس سفارش کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہر ووٹر کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے : ترجمہ:’’ جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے تو اس میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے اور بری سفارش کرتا ہے تو اس کی برائی میں اس کا بھی حصہ لگتا ہے‘‘ (النسا ٗ:۸۵) ۔ نہایت ضروری بات یہ ہے کہ جس طرح قرآن و سنت کی روسے یہ واضح ہوا کہ نا اہل ، ظالم، فاسق اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہ عظیم ہے۔اسی طرح ایک اچھے ، نیک اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثواب عظیم ہے،بلکہ ایک فریضۂ شرعی بھی ہے۔ قرآن کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرمایا ہے۔آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آ رہی ہیں، ان کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نیک ، صالح حضرات عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرنے لگے، جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدہ میں آ رہا ہے کہ ووٹ عموماً ان لوگوں کے آتے ہیں جو چند ٹکوں میں خرید لئے جاتے ہیں اور ان لوگوں کے ووٹوں سے جو نمائندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں، وہ ظاہر ہے کہ کس کماش اور کس کردار کے لوگ ہوں گے ،اس لئے جس حلقہ میں کوئی بھی امیدوار قابل اور نیک معلوم ہو، اُسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی حرام اور پوری قوم و ملت پر ظلم کے مترادف ہے۔ دوسروں کی دُنیا سنوارنے کیلئے اپنا دین قربان کردینا کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو، کوئی دانشمندی نہیں ہو سکتی۔ رسو ل ﷺنے فرمایا ہے کہ:’’ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کے لئے اپنا دین کھو بیٹھے‘‘۔زیادہ سے زیادہ شیئر کریںاپنی رائے کے لئےرابطہ کریں۔
یورپ سے سے مزید