• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

خاتون عاقلہ وبالغہ ہے ، ہر عاقل وبالغ اپنے فعل کا خود ذمے دار ہوتا ہے، پس اگر خاتون نے دوسرے شخص سے نکاح اپنے والد کی رضا کے بغیر محض اپنی مرضی سے کیا ہے اور اس کے والد نے اس سے بیزاری کا اظہار کیا ہے، تو وہ اس کی ذمے داری سے بری ہیں ،لیکن اگر خدانخواستہ اس خاتون کے والد (امام مسجد) اس نکاح میں شریک تھے یا اسے ان کی رضامندی حاصل تھی ، تو اُن کی امامت جائز نہیں۔

امام اہلسنّت امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ عدت میں نکاح پڑھانے والے امام کی بابت ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’عد ت میں نکاح تو نکاح، نکاح کا پیغام دینا حرام ہے۔ جس نے دانستہ عدت میں نکاح پڑھایا، اگر حرام جان کر پڑھایا ،سخت فاسق اور زنا کا دلال ہوا ،مگر اُس کا اپنا نکاح نہ گیا اور اگر عدت میں نکاح کو حلال جانا تو خود اس کا نکاح جاتا رہا اور وہ اسلام سے خارج ہوگیا، بہر حال اُ س کو امام بنانا جائز نہیں ،جب تک توبہ نہ کرے، یہی حال شریک ہونے والوں کا ہے، جو نہ جانتا تھاکہ نکاح پس از عدت ہو رہا ہے، اُس پر کچھ الزام نہیں اور جو دانستہ شریک ہوا ،اگر حرام جان کر تو سخت گنہ گار ہوا۔ اور حلال جانا تو اسلام بھی گیا،(فتاویٰ رضویہ، جلد11، ص:266)‘‘۔

غرض شادی شدہ یا مُعتدہ عورت کاعدت کے اندر جان بوجھ کر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنا ہرگز جائز نہیں ہے، فاسد وحرام ہے۔ جن لوگوں کو معلوم تھا کہ یہ عورت منکوحہ ہے اورشوہرِ اول کے طلاق دینے کے بعد عدت میں ہے، یہ جاننے کے باوجود وہ لوگ نکاح کے گواہ بنے یا نکاح پڑھایا، یا یہ نکاح کرایا، اگر انہوں نے یہ کام حلال سمجھ کر کیا ہے ، تو ان سب پر توبہ وتجدیدِ اسلام لازم ہے اور شادی شدہ ہیں تو تجدیدِ نکاح بھی لازم ہے اور اگر وہ اسے فعلِ حرام سمجھتے ہوئے اس میں شریک ہوئے ،تو وہ فاسق وفاجر ہیں، انھیں اپنے اس فعل پر نادم ہوکر اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنی چاہیے اور اس فعل سے بیزاری کا اعلان کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم بالصواب)