اسلام آباد (فخر درانی) پاکستان تحریک انصاف کے کچھ ہارنے والے امیدواروں نے عام انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں تو اس صورتحال کا قانونی علاج کیا ہے اور شکایات کے ازالے میں کتنا وقت لگتا ہے۔
ملتان سے آزاد امیدوار مہربانو قریشی نے نتائج پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے حلقے میں 16؍ ہزار ووٹ مسترد کیے گئے جبکہ فارم 47؍ پر کیے جاتے وقت انہیں ریٹرننگ افسر کے دفتر میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی انتخابی بے ضابطگیوں کو کس قانون کے تحت چیلنج کیا جا سکتا ہے اور ریلیف ملنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔
متاثرہ امیدوار الیکشن ٹریبونل میں سیکشن 139 اور 142 کے تحت پٹیشن دائر کر سکتا ہے تاہم یہ درخواست انتخابی نتائج کی اشاعت کے 45؍ روز کے اندر دائر کرنا ہوگی
درخواست دائر کرنے سے قبل امیدوار کو اپنے الزامات ثابت کرنے کیلئے تمام شواہد جمع کرنا ہوتے ہیں۔
یہ شواہد ویڈیوز، گواہوں کے بیانات یا دستاویزات کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ اگرچہ کچھ پی ٹی آئی امیدواروں نے دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کیے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے پاس اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے شواہد ہیں کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت شواہد کا ہونا درخواست جمع کرانے کیلئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔
کیا اب تک کسی نے ایسے کوئی شواہد میڈیا میں پیش کیے ہیں؟ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 144؍ کے تحت مدعی کو اسٹیٹمنٹ آف فیکٹ (حقائق نامہ) اور شواہد پیش کرنا ہوں گے تاکہ دھاندلی یا بے ضابطگی کے الزامات ثابت کیے جا سکیں۔
سماعت کے بعد الیکشن ٹریبونل متعلقہ الیکشن کالعدم قرار دے سکتا ہے، یا پھر دوبارہ الیکشن کا حکم جاری کر سکتا ہے یا پھر درخواست گزار (مدعی) کو سیکشن 154؍ کے تحت کامیاب امیدوار قرار دے سکتا ہے۔
ماضی قریب میں الیکشن ٹریبونل نے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا تھا اور 27؍ ستمبر 2019ء کو کوئٹہ کی نشست این اے 265؍ پر دوبارہ الیکشن کا حکم دیا تھا۔
قاسم سوری اپنے حریف نوابزادہ لشکری رئیسانی سے الیکشن جیت گئے تھے۔ رئیسانی نے یہ معاملہ 52؍ ہزار ووٹوں کو مسترد کرنے کی بنا پر چیلنج کیا۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ قاسم سوری پانچ ہزار ووٹوں سے الیکشن جیتے تھے اور انہوں نے 25؍ ہزار 973؍ ووٹ لیے تھے جبکہ لشکری رئیسانی کو 20؍ ہزار 89؍ ووٹ ملے تھے۔