• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائیڈ پارک… وجاہت علی خان
غیرت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی شرم، حیا،حمیت، رشک، فخر،احساسِ عزت، عزتِ نفس کا لحاظ و خیال ، حسد، رقابت، جلن کے بھی ہیں لیکن بدقسمتی سے برصغیر میں غیرت کے لفظ کو عورت کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، ہمارے معاشروں میں 80فیصد یہی سوچ وجہِ تنازع یہاں تک قتل وغارتگری کا سبب بھی بنتی ہے ۔ اس ضمن میں یہ صورتحال انتہائی اہم اور الارمنگ یوں ہے کہ پاکستان سے نکل کر خصوصا مغربی ملکوں میں پچاس، ساٹھ سال تک بود و باش رکھنے کے باوجود بھی ان ممالک کو پردیس ہی کہنے والے کبھی دو انتہائی متضاد معاشروں میں سے ایک کے بن کر نہیں رہ سکے اور مجھے قوی اُمید ہے کہ کبھی ایسا ہو بھی نہیں سکے گا اور ہم جیسے اوورسیز پاکستانی دو کشتیوں میں پاؤں رکھے ہوئے ہی زندگی گزاریں گے ۔ مجھ سے کچھ سینئرز مگر بڑی تعداد میں دوہری شہرت کے حامل پاکستانیوں کی حالت بقول شاعر یہ ہو چکی ہے کہ: اب تو گھبرا کے کہتے ہیں کہ کدھر جائیں گے ،مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ۔اصل میں غیرت اور بہادری و بزدلی کے معیارات ہر معاشرے میں ایک جیسے نہیں ہوتے ، اب اندازہ کریں کہ جس معاشرے میں غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل معمول ہو ، کسی عورت کے ساتھ جنسی فعل کیا جائے ، اس کے بال کاٹ کر بیچے جائیں، کمسن بچوں تک سے قبیح جنسی حرکات یا ان کا قتل کیا جائے اور یہ سب کچھ ہوتا رہے لیکن اس ملک کا معاشرہ یا سماج مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھے، مست رہے اور ان کی بہادری وغیرت سوئی رہے جوش میں نہ آئے تو اس معاشرے کے لوگوں کی شرم و غیرت کی دہائیاں چہ معنی دارد، آخر کیا وجہ ہے کہ عزت وغیرت جیسے بظاہر مثبت الفاظ کسی باپ، شوہر یا بھائی کو قاتل بنا دیتے ہیں لیکن دھوکہ دہی ، چوری ، کسی کی حق تلفی ، بد تہذیبی، بد دیانتی اور احسان فراموشی ، بد کرداری ، کم تولنے، ملاوٹ، زہریلہ دودھ بیچنے ، زخیرہ اندوزی ، بلیک مارکیٹنگ، جان بجانے والی جعلی دوائیں بنانے اور بیچنے جیسے گھناؤنے جرائم پر بھی بحیثیت مجموعی معاشرے کی غیرت نہ جاگتی ہے نہ جوش میں آتی ہے بلکہ سوئی رہتی ہے ، اگر کوئی عورت طلاق کا مطالبہ ہی کر دے یا دوسری شادی کرنا چاہے تو بھی غیرت کے لفظ کو بنیاد بنا کر فی زمانہ جاہلانہ رویہ اپنایا جاتا ہے، غیرت کے نام پر صرف عورت کی نقل و حرکت پر ہی پابندی عائد نہیں کی جاتی بلکہ عورت کی جنسیت پر بھی پہرے بٹھا دیئے جاتے ہیں،ہماری نام نہاد غیرت تقاضا کرتی ہے کہ عورت پر مکمل قبضہ رہے، غیرت کا اس قسم کا اُلٹا تصور تمام برصغیر اور ان باشندوں میں جو اوورسیز میں ہیں، میں پایا جاتا ہے اور اس کا تعلق کسی ایک مذہب، ثقافت، معاشرے اور طبقے سے نہیں ہے، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال دُنیا میں پانچ ہزار کے قریب عورتیں غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں اور ان کی بڑی تعداد پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھتی ہے۔اب ایک آپس کی اور اندر کی بات بھی سنیں، میں جس معاشرے میں رہتا ہوں یہاں آنر اور ریسپیکٹ کے الفاظ تو ان کی ڈکشنری میں موجود ہیں اور انہیں عزت و تکریم کے معنوں میں بھی لیا جاتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے غیرت کا کوئی خاص انگریزی لفظ اور مفہوم ہی نہیں ہے اور ایک بے لحاظ سچ تو یہ بھی ہے کہ وہ پاکستانی جو اپنے ملک، شہر، علاقے، گلی ومحلے، دوست احباب اپنے وطن کی دھوپ چھاؤں، بہار و برسات اور موسموں کی رم جھم، غمیاں، خوشیاں اور بچپن و لڑکپن کی کھٹی میٹھی یادیں چھوڑ بلکہ تیاگ کر پردیس میں قدم رکھتے ہیں اور جب انہیں انڈے کو ایگ اور ڈبل روٹی کو بریڈ کہنا پڑتا ہے جب انہیں ایک’’ دو کوڑی کے پلسیئے” کو بھی یس سر یس سر کہہ کر بات کرنا پڑتی ہے، جب ہمیں نان و نفقہ کے حصول کی خاطر اور دو کمروں کی چھت کیلئے حقیقی معنوں میں اپنی ’’ میں" کے گلے میں پھندہ ڈال کر اسے مصلوب کرنا پڑتا ہے جب ہمیں اپنی بیوی سمیت کسی بھی عورت کی غلط بات پر بھی اپنے ضمیر کو تھپکی دے کر سُلانا اور کھلی آنکھوں کو ز بر دستی بند کرنا پڑتا ہے جب اپنے ہی جوان بچوں کے ہاتھوں بے عزت ہونا پڑتا ہے کہ بھائی یہ مغربی ریاستیں، عورتوں اور بچوں کا ہر حال میں تحفظ کرتی ہیں تو ان حالات میں بھائی صاحب ! آپس کی بات ہے ہمارے اندر کہیں جوش مار رہی غیرت بی بی اندر ہی کسی اندھیری کوٹھڑی میں خود کشی کر لیتی ہے اور ہم اوور سیز پاکستانی پاکستان کے حساب سے اپنی بے غیرتی کا چولہ اٹھائے اس انسانی اور برابری کے حقوق والے معاشروں میں سٹیریو ٹائپ زندگی گزارنے اور پونڈ و ڈالر کمانے میں مگن ہو جاتے ہیں بے بسی کے طمانچے ہیں جو ہمیں چاروں طرف سے تابڑ توڑ پڑتے ہیں اور دو انتہاؤں میں پھنسے ہم لوگ ادھر کے ہیں نہ اُدھر کے ، ریاست اور اس کے تمام تر قوانین عورت اور بچوں کے تحفظ کیلئے بنے ہیں کوئی انسان دوسرے انسان کو ہلکی سی چپت تک لگانے کا مجاز نہیں، شوہر اور بیوی کی تکرار میں قانون اور تمام ادارے آنکھیں بند کر کے بیوی کا ساتھ دیں گے اپنے ہی بچوں پر آپ شاؤٹ تک نہیں کر سکتے تو ان حالات میں غیرت کیا اور بہادری کیا، اے بسا آرزو کہ خاک شده ! مجھ سے قبل برطانیہ میں آباد ہونے والے وہ پاکستانی جنہوں نے “ایسے یا ویسے” ملیئنز کمائے اور اب وہ صاحب ثروت وحیثیت بھی ہیں، ان کی بھی اور دیگر محنت کش طبقہ کی بھی کبھی اندر کی حالت ٹٹول کر دیکھی جائے تو وہ پھٹ پڑیں گے۔ وہ اولاد یں جو محاورے کے مطابق سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئی تھیں آج جوان ہو کر بوڑھے باپ کے مرنے کا انتظار کر رہی ہیں اور اس باپ میں اتنی سکت بھی نہیں کہ اپنی نافرمان بیوی یا اولاد کو جائیداد سے ہی عاق کر دے اور جن کیلئے اس نے تمام تر عیش و آرام اور تعیش زندگی کی راہ ہموار کی انہیں سخت سست ہی کہہ سکے اور کچھ نہیں تو غیرت و بہادری جیسے الفاظ کو بروئے کار لا سکے کیونکہ یہ سکت، یہ ہمت اور غیرت ریاست کے سخت قوانین نے اس سے چھین لی ہے۔ جہاں یہ مغربی معاشرے ہم لوگوں کے اندر سے غیرت کے شعلے سرد کرتے ہیں وہاں ہماری بہادری کے وہ فارمولے جو ہم اپنے آبائی ملکوں سے لے کر چلتے ہیں یہاں آتے ہی انتہائی سرعت سے یہ معاشرہ آپ کے اس فارمولے کو زیرو کرتا ہے۔ بہادری سے بزدلی کا یہ سفر ہمارے لئے بڑا کر بناک ہوتا ہے یعنی آپ غصہ آنے پر کسی کو مُکا تک نہیں مار سکتے کسی کی دھلائی نہیں کر سکتے حتی کہ چور تک کو مار نہیں سکتے ۔ چنانچہ یہ مغربی معاشرہ آپ کے اندر کے حیوان کو اس طرح سے باندھ دیتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہادری اور غیرت کی جگہ معاملہ فہمی اور مصلحت غالب ہوتی جاتی ہے۔ اگر اس بات پر کسی کو یقین نہ آئے تو دس ،بیس سال سے کسی مغربی ملک کے مکین پاکستانی کو اعتماد میں لے کر پوچھا جا سکتا ہے بلکہ یہ سوال کر کے اس کی آنکھوں میں جھانک لیا جائے تو بہت سے در وا ہو جائیں گے کیونکہ آنکھوں کی زبان اس قدر صاف اور دو ٹوک ہوتی ہے کہ غلط فہمی کا امکان ہی نہیں رہتا اور سچ زبان کی مہروں میں بہہ جاتا ہے۔ ایک دل کہتا ہے اور دوسرا سمجھ لیتا ہے۔ مغربی ملکوں میں فطری آزادی پر کوئی پابندی نہیں ، شوقینوں کے لئے رامش و رنگ اور رقص و سرود میں ڈوبی شامیں ، شبستانوں میں لہراتی سیاہ راتیں اور طوفان گیسو و رخسار کی بھی کوئی کمی نہیں ، اسکاچ بھی پانی کی طرح بہائی جاتی ہے لیکن جانے کیوں دوہری تہذیب ، دوہری بودو باش کے حاملین کے لئے حقیقی شادمانی کی کمی ہے ۔ شاید اس وجہ سے کہ “مغرب” نے ان سے بچپن و جوانی کی کھٹی میٹھی یادیں تو چھین ہی لیں ان کی نام نہاد غیرت وبہادری کو بھی صلیب پر چڑھا دیا ۔ جی نہیں ، میں نے کسی کو بے غیرتی اورکم ہمتی کا طعنہ نہیں دیا بلکہ ایک تجزیہ پیش کیا ہے جو ایک بڑی اکثریت پر ثابت ہوتا ہے اقلیت پر نہیں ۔
یورپ سے سے مزید