• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ آئندہ 5سال کی میعاد کے لیے حکومتیں شعبان المعظم کے آخری دنوں میں اپنا وجود پارہی ہیں۔ پھر یہ سلسلہ رمضان کے مبارک اور مقدس ایّام میں بھی جاری رہے گا۔ ہم ظاہر کریں یا نہ کریں۔ اندر سے ہم سب کو ہی احساس ہوگا کہ ان مہینوں کی برکتیں اور رحمتیں ہمارا خیر مقدم کرنے کو بے تاب ہیں مگر اللہ تعالیٰ تو ہم سب کے محاسن و عیوب سے پوری طرح واقف ہے۔ وہ تو جانتا ہے کہ ہم میں سے کتنے سچ بولتے ہیں۔ قاعدے قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ کس کو حقیقی معنوں میں مینڈیٹ ملا ہے۔ کس نے بزور زر لیا ہے۔

آج اتوار ہے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کا دن۔ ہمیں رمضان کے استقبال کی تیاریاں بھی کرنا ہیں۔ جو برکتیں، رحمتیں اور مغفرتیں لے کر آ رہا ہے۔مجھے اچھی طرح ادراک ہے کہ ہم جو سات یا آٹھ دہائیوں والے ہیں۔ اپنی بھرپور زندگی گزار چکے ہیں۔ ہم ملک کی تاریخ کو جتنا بگاڑ سکتے تھے بگاڑ چکے ہیں۔ آج بھیانک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ تحقیق کرنے والوں کا بہت محتاط تجزیہ ہے کہ ہم دنیا سے کم از کم 50 سال پیچھے رہ گئے ہیں اور اس میں ہم سب کی کوتاہیاں شامل ہیں۔ ہم ایک دوسرے پر الزام عائد کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہمارا غفار، ستار،تو سب جانتا ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت نے سب کچھ دیکھا ہے۔ پھر سوشل میڈیا پر آڈیو وڈیو لیکس تبصرے۔ مشاہدات عینی شہادتیں بھی اصل ذمہ داروں کو بے نقاب کر رہی ہیں۔پروردگار کا کتنا کرم ہے کہ اس نے اس عظیم مملکت کو 60 فی صد نوجوان آبادی سے نوازا ہے۔ 15 سے 35سال کے درمیان کے یہ ہم وطن ہمارا اثاثہ ہیں۔ یہی ہماری امکانی دنیا کا مرکزی دھارا ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ برے بھلے میں تمیز کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی آغوش میں پلے ہیں۔ کتاب اور کاغذ کی بجائے یہ اسکرین کو زیادہ وقت دیتے ہیں۔ ان کی انگلیاں کی بورڈ پر نہیں جدید زمانے کی نبض پر رہتی ہیں۔ان کے دلوں میں کرب ہے کہ یہ اپنے وطن میں رہنے والے بزرگوں، مائوں، بہنوں کی زندگی کو کتنا آسان بنا سکتے ہیں۔ اپنے وسائل پر کتنا انحصار کر سکتے ہیں۔ میرے ان نوجوانوں کو معلوم ہے کہ ریکوڈک میں ہمارے مستقبل کے خزانے ہیں۔

اب جب ہم ایک نئے سفر کا آغاز کررہے ہیں، سچ اور جھوٹ میں امتیاز کررہے ہیں، اصلی اور جعلی مینڈیٹ کا ہمیں فرق معلوم ہے۔ فارم 45 والے کون، فارم 47 والے کون۔ کس کا ضمیر مطمئن ہے، کس کا مضطرب۔ بہت سے اشراف ڈر بھی رہے ہیں کہ کہیں ان کا ضمیر بیدار نہ ہوجائے۔ وہ اپنے ضمیر کو کرنسی نوٹوں سے تھپکیاں دے کر آنکھوں پر درہم باندھ کر سلادیتے ہیں۔ رسمی جمہوری ڈھانچہ کھڑا کیا جا رہا ہے اس لیے رسمی طور پر حقیقی اعداد و شُمار بھی جاری ہونے چاہئیں۔ حکومت اور ریاست تو سچے اعداد وشُمار دینے سے گریز کرتی ہیں۔ میری یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور میڈیا سے گزارش ہو گی اور یہ ایک قومی فریضہ بھی ہے کہ جس روز سے نئے وزیر اعظم کی 5سالہ میعاد شروع ہو۔ اس دن کے حقیقی اشاریے قوم کی آگاہی، اس وزیر اعظم کی خبرداری کیلئے شائع کیے جائیں۔ اسے اندازہ ہو کہ اسے کتنے دریا عبور کرنا ہیں۔ اس کی کابینہ کو بھی درپیش چیلنجوں کا ادراک ہو۔ اب سوشل میڈیا کے گھوڑے ہر سڑک، ہر گلی میں دوڑ رہے ہیں۔ اب میڈیا کا گلا نہیں گھونٹا جاسکتا ۔

یونیورسٹیاں،تحقیقی ادارے، این جی اوز، میڈیا 4مارچ کو قوم کو بتائیں کہ آج ڈالر حقیقی معنوں میں کتنے روپے کا ہے۔ افراط زر کی شرح کتنی ہے۔ برآمدات کتنے ڈالر کی ہیں۔ درآمدات کتنے ڈالر کی۔ خسارہ کتنا ہے۔ زراعت کی شرح نمو کیا ہے۔ صنعت کی رفتار کیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں۔ ہم پر غیر ملکی قرضے کتنے ارب ڈالر کے ہیں۔ اس میں امریکہ کے کتنے برطانیہ، جاپان، سعودی عرب، فرانس وغیرہ کے کتنے۔ پاک چین دوستی اپنی جگہ لیکن ہم چین کے کتنے مقروض ہیں۔ چین پاک اقتصادی راہداری میں چین نے کتنی سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان کواپنا جو حصّہ ادا کرنا تھا، وہ کیا ہے یا نہیں۔ آئی ایم ایف سے ہم نے کتنے قرض لیے ہیں، کب ادا کرنا ہیں۔ ریکوڈک سمیت ہمارے قدرتی وسائل کی کیا صورت حال ہے۔ ہمارے پاس آئندہ گیس، تیل کے ذخائر کا کیا تخمینہ ہے۔ ہم قدرتی وسائل پر کتنا انحصار کر رہے ہیں۔ ہمارے اندرونی قرضے کتنے ہیں۔ پنجاب، سندھ،کے پی کے، بلوچستان کو وفاق نے کتنا پیسہ دینا ہے۔ صوبوں نے وفاق کے کتنے قرضے ادا کرنا ہیں۔ صنعتوں کے لیے بجلی گیس کی فراہمی کی کیا شرح ہے۔ عام پاکستانیوں کی گیس بجلی کی ضروریات کیا ہیں۔ ریاست اس میں سے کتنی پوری کر پا رہی ہے۔ ہماری بندرگاہوں پر جہازوں کی آمدورفت کی کیا رفتار ہے۔ پی آئی اے، پاکستان اسٹیل اور دوسرے ریاستی منصوبوں پر کتنے قرضے ہیں۔ ملازمین کی تنخواہیں کتنے مہینوں کی واجب الادا ہیں، ریٹائرڈ عام ملازمین کی پنشن کے واجبات کتنے ہیں۔ جنرلوں، بریگیڈیروں ،کرنلوں سمیت اعلیٰ ریٹائرڈ فوجی افسر، جج، کتنی پنشن روپوں میں لے رہے ہیں، کتنی ڈالروں میں۔ ریٹائرڈ ججوں کو ملنے والی کروڑوں روپے کی مراعات سے عام لوگوں کو انصاف میں کیا مدد ملتی ہے۔یہ حقیقی اعداد و شُمار جاننا عوام کا آئینی حق ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ یہ تفصیلات جاری کرے۔ ور نہ یونیورسٹیاں یہ ذمہ داری پوری کریں۔ اس سے رسمی جمہوری ڈھانچے کو اندازہ ہو سکے گا کہ ان کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ استقبالیہ جلوسوں، نعرے بازیوں سے یہ قرضے ادا نہیں ہوسکیں گے اور نہ ہی اپوزیشن کے دھرنوں، احتجاجوں سے اور نہ ہی اعلیٰ عدالتوں کے انصاف ٹالنے سے۔ اب صرف کام اور کام کا وقت ہے۔ ہماری موجودہ نسلیں ماضی کی سیاسی اور فوجی غلط پالیسیوں کا نتیجہ بھگت رہی ہیں۔ ڈالر ان کی بدولت ہی 280روپے کا ہوچکا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے ہمارے دس کروڑ جا چکے ہیں۔ وہ ہمارے ہم وطن ہیں۔ اس سر زمین کے وسائل پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا حکمران خاندانوں کا۔

یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ پارلیمنٹ کے بارے میں بہت شکوک و شبہات ہیں۔ اس لیے اسے حقیقی بالادستی نصیب نہیں ہو گی۔ پارلیمنٹ سے باہر تعلیمی اداروں، کارپوریٹ حلقوں، میڈیا کو پاکستان بچانے کی ذمہ داری لینی چاہئے کہ پانچ سال کا روڈ میپ کیا ہو گا۔ ہم نے چالیس سال یہ فریضہ حکومت اور ریاست کے کندھوں پر چھوڑ کر اس کے نتائج دیکھ لیے۔

تازہ ترین