• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:بیرسٹر عثمان چیمہ…لندن
ابھی صبح دن کے آغاز کے لئے تیاری جاری تھی کہ ایک پختون دوست کا فون آ گیا۔ سلام دعا کے بعد بولا ’’بھائی آج زندگی میں پہلی دفعہ کسی پختون کی وجہ سے سر شرم سے جھک گیا ہے‘‘۔ میں نے لا علمی میں پوچھا ’’یارا کیا ہو گیا‘‘ تو کہنے لگا بھائی، سیاسی اختلاف اپنی جگہ پر آج اک بے غیرت پختون نے اسمبلی میں موجود ایک عورت رکن اسمبلی کے لئے ایسے گھٹیا الفاظ استعمال کئے ہیں کہ وہ سن کر دکھ بھی ہے، غصہ بھی ہے اور اپنے آپ سے شرم بھی آ رہی ہے۔ میں نے کہا یارا، ابھی سوشل میڈیا کے ذریعے اس واقعہ کے بارے میں پتہ چلا ہے لیکن میں جہاں تمہارے جذبے کی قدر کرتا ہوں وہیں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ اچھے برے لوگ ہر قبیلے، گروہ اور نسل میں موجود ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ اچھے لوگ اکثریت میں ہوتے ہیں اور برے چند ایک۔ لہٰذا ایک شخص کی ذاتی غلطی، بد زبانی اور شرمناک حرکت کے سبب تمام پختون قوم کو برا بھلا کہنا یا ذمہ دار ٹھہرانا جائز نہیں۔ تو وہ اور بھڑک اٹھا۔ کہنے لگا، نہیں بھائی، یہاں آپ سے اختلاف ہے۔ مجھے کبھی اپنے پختون ہونے پہ شرم محسوس نا ہوتی اگر اسی اسمبلی میں موجود کوئی غیرت مند پٹھان اس بندے کا منہ توڑ دیتا۔ مجھے کبھی سر نا جھکانا پڑتا اگر وہاں موجود ہمارے دیگر نمائندےاس گھٹیا شخص کو گریبان سے پکڑ کر نکال باہر کرتے۔ اسمبلی میں موجود سینئر لوگ خاتون سے معذرت کرتے اور اس کے سر پہ اپنی چادر رکھ دیتے۔ یہی ہماری روایات ہیں، جن کے ہم صدیوں سے وارث و امین ہیں لیکن وہاں موجود کوئی شخص اس بیچاری کی مدد کو آیا اور نا ہی کسی نے اظہار ہمدردی میں دو لفظ ہی کہے۔ کہنے لگا کہ پختون تو وہ قوم تھی جو خواتین کی عزت و آبرو کی خاطر جان و مال کی پرواہ کئے بغیر بڑے سے بڑے اور طاقتور سے بھی ٹکرا جاتی لیکن کیا ہو گیا کہ میری قوم کا ایک فرد آج نیشنل میڈیا پر لائیو نشریات کے دوران واہیات و شرمناک آوازے کستا اور لچر گفتگو کرتا رہا اور پاس موجود افراد اس پر قہقہے لگا کر بے غیرتی و بے حسی کی آخری حدود بھی عبور کر گئے۔ کہنے لگا، میرے بس میں ہو تو ان تمام کو زندہ درگور کر دوں۔ میں نے کہا، یارا، تیری پارٹی کے ہی تو لوگ ہیں۔ تو وہ پھر بول اٹھا کہ اسی لئے مجھے زیادہ دکھ ہے، مجھے زیادہ غصہ ہے۔ میں پچھلے 15/16سال سے اس پارٹی کا ووٹر سپورٹر ہوں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں اچھے برے کی تمیز بھول بیٹھا ہوں یا بے غیرت بن گیا ہوں۔ میرے گھر میں بھی خواتین ہیں۔ سوچتا ہوں کہ اگر کوئی ان میں سے کسی کے ساتھ ایسی حرکت کرتا تو میرا ری ایکشن کیا ہوتا۔ یقیناً اس سے کئی گنا زیادہ سخت ہوتا۔ تو وہ جو اس گھٹیا شخص کے ساتھ اس وقت موجود تھے کیا ان کے گھروں میں خواتین نہیں ہیں؟ ان کی غیرت کہاں تھی اس وقت؟ میں نے کہا یارا، امید ہے کہ اس کے خلاف ضرور کارروائی ہوگی اور اسے نشان عبرت بنایا جائے گا۔ تو وہ پھر بول پڑا۔ نہیں بھائی، جب قوموں کے دلوں سے غیرت و حمیت نکل جاتی ہے تو پھر کہاں انصاف، کہاں سزا و جزا۔ کہنے لگا بھائی میں تو صبح سے ہزار دفعہ مرا ہوں۔ میں نے کہا یارا کچھ وقت دو، کارروائی ضرور ہو گی تو وہ کہنے لگا کہ بھائی، صبح میری بیٹی نے سوشل میڈیا پہ وڈیو دیکھنے کے بعد مجھے کہا، بابا، اگر یہ پاکستان ہے، اگر یہ پختونخوا ہے اور ایسی پختون روایات ہیں تو پھر آج سے میرا پاکستان، پختونخوا اور پختون کمیونٹی سے کوئی تعلق نہیں اور آپ کا بھی نہیں ہونا چاہئے۔ پھر کہنے لگی کہ یہی عمران خان کی پارٹی ہے جس کو ہم سب نے دن رات سپورٹ کیا ہے؟ اگر ہماری سپورٹ کا آخری نتیجہ یہی ہے تو آج سے میں اس پارٹی پر دو حرف بھیجتی ہوں۔ اب بتاؤ بھائی، میں کب کب جئوں اور کب کب مروں، میں کیا کہوں اور کیا جواب دوں؟ اب صبح سے بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ جس پارٹی کے کارکنان کی تربیت ایسی ہو، کیا وہ گھریلو پارٹی کہلا سکتی ہے۔ کیا ایسی وڈیو یا آڈیو اور ان میں ہونے والی ایسی فحش گفتگو پختون اپنی بہنوں بیٹیوں، ماؤں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ یا سن سکتے ہیں؟ میں نے کہا، یارا تیرا اور ہماری بھتیجی کا غصہ جائز ہے لیکن ساتھ دعا ہے کہ ایسا کرنے والا خود سے پشیمان ہو اور اس کو اس کے اپنے گھر کی خواتین لعن طعن کریں تاکہ اسے احساس ہو کہ اس نے نا صرف پختون روایات کو پامال کیا ہےبلکہ اسلامی تعلیمات کی بھی صریحاً خلاف ورزی کی ہے۔ پھر ایک توقف کے بعد بولا۔ بھائی آج صبح سے ایک خیال، ایک سوال بار بار ذہن میں آ رہا ہے کہ کیا میں نے، میرے اہلخانہ نے اور پوری پختون قوم نے اس قماش کے لوگوں کی پارٹی کو سالہا سال اور دن رات سپورٹ کر کے کہیں کوئی ناقابل معافی جرم تو نہیں کر دیا۔ کہنے لگا بہت سی چیزوں پر اپنی پارٹی اور لیڈران سے اختلاف رہا ہے اور ہمیشہ پارٹی کے اندر سے بہتری کے لئے آواز اٹھی ہے لیکن پچھلے چوبیس گھنٹوں سے پارٹی کی خاموشی بلکہ نو منتخب وزیراعلیٰ کی طرف سے ایسے عمل کو ردعمل کا نام دے کر جسٹیفائی کرنا مزید شرمناک عمل ہے۔ یہ سب میرے جیسے بندے کے لئے ناقابل قبول ہے اور یہی وجہ ہے کہ اک غیرت مند پختون ہونے کے ناطے، ایک ماں کی اولاد ہونے کے ناطے، دو بہنوں کا بھائی ہونے کے ناطے اور دو بیٹیوں کا باپ ہونے کے ناطے آج میں نےمجبور ہو کر اس پارٹی، اس میں موجود ایسے گندے کرداروں اور ایسی شرمناک حرکت کو رد عمل کا نام دینے والے صوبائی حکمران کو علی الاعلان ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہ دیا ہے۔ لہٰذا آج اسی شرمندگی کے ساتھ میں آپ سے بھی معذرت خواہ ہوں کہ کبھی کبھی بحث مباحثے میں عقل پر پردہ ہونے کی وجہ سے شاید کچھ الٹا سیدھا بول گیا ہوں گا۔ چنانچہ بھائی آج کھلے دل سے معاف کر دیں۔ کہنے لگا میری بیٹیوں نے مجھے آج کہہ دیا کہ آج کے بعد ہم نے کسی پختون کے گھر بھی نہیں جانا۔ اگر جائیں گی تو صرف انکل چیمہ کے گھر کیونکہ آپ کے ہاں انہیں آپ سے، بھابی سے بیٹیوں والی عزت و احترام اور آپ کی بیٹیوں سے بہنوں والا پیار ملتا ہے۔ کہنے لگا کہ یاد رکھیں کسی قوم کی غیرت کو جھنجھوڑنے کے لئے ایک چھوٹا سا واقعہ ہی کافی ہوتا ہے اور جو ہو چکا ہے، اس سے بہت سوں کی سوچ پہ پڑا بے عقلی کا پردہ کھل گیا ہے کہ یہ پارٹی اور اس کے لوگ پختون روایات، اسلامی تعلیمات کو پامال کرنے میں ایک منٹ نہیں لگاتے چنانچہ صرف اس واقعے کی وجہ سے آج میری طرح بہت سے غیرت مند پختون باپ، بہت سے بھائی، بہت سی بہنیں اور بیٹیاں اس پارٹی کو چھوڑ جائیں گے اور یقین ہے کہ یہیں سے، اسی واقعے سے ان کا زوال کا سفر شروع ہو چکا۔
یورپ سے سے مزید