• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: (1)ایک شخص عمرے کی نیت سے مکہ مکرمہ جارہا ہے اور دانستہ طور پر میقات سے احرام باندھے بغیر گزرتا ہے، پھر مکہ مکرمہ میں ایک دن قیام کے بعد مسجدِ عائشہ سے جاکر احرام باندھتا ہے اور عمرہ ادا کرتا ہے ، کیا اُس پر دَم واجب ہے ۔ (2)اگر کسی مجبوری کی وجہ سے احرام کے بغیر میقات سے گزر جائے اور پھر واپس میقات پراگر قضا عمرے کی نیت کرلے ، تلبیہ بھی پڑھے ،تو اس کا کیا حکم ہے ؟( مدثر حسین ، نیویارک ،امریکا )

جواب: عمرے کی نیت سے مکہ جانے والے شخص کے لیے میقات سے پہلے احرام باندھنا ضروری ہے، اگر ارادہ حرم کا نہ ہو، بلکہ حِلّ یا آفاق جانے کا ہو اور اسے میقات کے اندر سے گزرنا پڑے تو اس پر احرام باندھنا ضروری نہیں ہوتا۔ نوٹ: حدودحرم اورمیقات کے درمیان علاقے کو ’’حِلّ ‘‘ کہتے ہیں۔ آفاقی(میقات سے باہر رہنے والے)کا ارادہ حرم جانے کا ہو تواُس کے لیے حج یا عمرہ میں سے کسی ایک کاا حرام (پانچوں میقات میں سے کسی ایک )میقات یا اُس کے مُحاذات سے باندھنا لازمی ہے ، اگر آفاقی احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہوجائے توایک عمرہ کرنااور حرم کی حدود میں ایک دم دینا اس پر لازم ہوگا ،تاہم اگروہ واپس میقات آکر عمرہ یا حج کا احرام باندھے گا تو دم ساقط ہوجائے گا ۔(2)دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ واپس میقات پر آکر عمرے کی نیت کی، تلبیہ پڑھا ، تو عمرہ صحیح اداہوگیا اور اس پر دَم وغیرہ کچھ بھی واجب نہیں ہے۔ ان دونوں مسائل کی تفصیل درج ذیل ہے :

علامہ نظا م الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ حج یا عمرے کا ارادہ ہے اور بغیر احرام میقات سے آگے بڑھا ، یا تو اس نے میقات کے اندر احرام باندھا یا میقات پرلوٹ کر آیا اور وہاں سے احرام باندھا ،اگر میقات کے اندر احرام باندھا ہے تو یہ دیکھاجائے گا کہ اگر میقات تک واپس آنے میں حج فوت ہوجانے کا خدشہ ہے تو واپس میقات پر نہ جائے، وہیں سے احرام باندھے اوردَم دے اوراگر یہ اندیشہ نہیں تو واپس میقات پرجائے ،(پھر اس میں بھی دو صورتیں ہیں :ایک یہ کہ) بغیر احرام واپس میقات پر آیا اور میقات سے احرام باندھا تو دَم ساقط ہوگیا اور(دوسری صورت یہ کہ) میقات تک احرام باندھ کر آیا، تو امام اعظم ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں: اگر وہ تلبیہ (لبیک ) پڑھ چکا ہے ،تو دَم ساقط ہوگیا اور اگر تلبیہ نہیں پڑھا،تو دَم ساقط نہیں ہوگا اور صاحبین کے نزدیک دونوں صورتوں میں دَم ساقط ہوجاتا ہے ۔ اور جو شخص اپنے میقات سے بغیر احرام گزر جائے ،پھر قریبی کسی میقات سے جا کر احرام باندھے ،تو جائز ہے اور اس پر کچھ(یعنی دَم ) واجب نہیں ہوگا، (فتاویٰ عالمگیری ، جلد1،ص:253)‘‘۔

صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمیؒ لکھتے ہیں: ’’میقات کے باہر سے جو شخص آیا اور بغیر احرام مکہ معظمہ کو گیا تو اگرچہ نہ حج کا ارادہ ہو، نہ عمرہ کا مگر حج یا عمرہ واجب ہو گیا ،پھر اگر میقات کو واپس نہ گیا، یہیں سے احرام باندھ لیا تو دَم واجب ہے اور میقات کو واپس جاکر احرام باندھ کر آیا تو دَم ساقط، (بہارِ شریعت ، جلد1،ص:1191)‘‘۔

علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں:’’ کوئی شخص احرام کے بغیر میقات سے گزرا ،پھر احرام باندھ کر تلبیہ پڑھتے ہوئے (میقات پر)واپس آیا یا جو میقات سے بغیر احرام گزراپھر تلبیہ پڑھتے ہوئے احرام باندھ کر واپس آیا یا گزرنے کے بعد احرام باندھا اور پھرعمرے کی قضا کی ، تودَم باطل ہے،یعنی مقررہ مواقیت میں سے کسی میقات سے بغیر احرام گزرا اور پھر احرام باندھ کرواپس لوٹا اور تلبیہ پڑھی ، تواحرام کے بغیر گزرنے کے سبب اُس کے ذمے جو دَم واجب ہوگیا تھا ، وہ ساقط ہوگیا ، (البحرالرائق ،جلد3،ص:51)‘‘۔