’’ماہ رمضان المبارک‘‘ اکرام و تعظیم کا مہینہ ہے جو عبادت و ریاضت ، اطاعت و بندگی ، اتباع و سپردگی کا مہینہ ہے، بھوک و پیاس کو کنٹرول کرنے، بھوکے، مسکین اور بے کسوں کا احساس اور کچھ سبق یاد کرانے آتا ہے، لیکن ہم اسے ذائقہ دار کھانوں ، چٹخارے دار سحری و افطاری کے اہتمام میں گنوا دیتے ہیں، جس مہینہ میں کم کھانے کی ترغیب دی گئی ، اسی مہینے کو سب سے زیادہ کھانے پینے سے منسوب کردیا گیا، نہ صرف یہ بلکہ سحر وافطار کے پیکجز تک متعارف کرئے جاتے ہیں ، جس ماہ نیند کم کرکے زیادہ عبادت کرنے کا حکم ہوا، اسی کو خوب سونے و آرام سے منسلک کردیا ۔ رمضان دیگر مہینوں میں سردار کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ ماہ مبارک دراصل ،مومنین کے لیے تیس دن کا تربیتی کورس ہے،جس میں نفس کی تربیت، اخلاق عالیہ کو سنوارنے اور ایثار و صبر کو جلا بخشنے کی کوشش کرنی اور روحانی قوت کو بڑھانا ہے ، کیوں کہ ایسے ہی روزے داروں کے لیے بشارت دی گئی، انہی لوگوں کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ لیلتہ القدر میں انہی متقین سے سلام کرنے فرشتے اترتے ہیں اور ان کی بخشش کا پروانہ جاری کیا جاتا ہے ۔ صوم ، جس کے لغوی معنی ’’رک جانے‘‘کے ہیں۔
یعنی پرہیز کرنا ،حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں، اس سے مراد بات کرنے ، کھانے پینے ،چلنے پھرنے سے رک جانے والا روزے دار ہے۔ روزے کے مفہوم واحکام سے تو ہم سب واقف ہیں۔ ہم اس کے مقاصد، مراحل، اہداف اور مراتب سے بھی کچھ آگاہی حاصل کر لیتے ہیں۔ روزہ رکھنے والے کو وہ روحانی قوت فراہم کرتا ہے، جس سے بندے میں عزم و حوصلہ کی طاقت ملتی ہے ۔ اطاعت و فرمانبرداری کی ازسرنو تربیت ہوتی ہے۔
سختی برداشت کرنے کی عادت پڑتی ہے ۔ نفس کو قابو کرکے، اپنے مقصد زندگی سے مزید قریب ہونے کی اور اسے سمجھنے کی توفیق عطا ہوتی ہے، کیوں کہ جب انسان مقصد زندگی سمجھ لیتا ہے تو وہ صرف مخصوص حالات میں اس پر عمل نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ ان پر عمل پیرا ہونے کی جستجو میں رہتا ہے۔
ماہِ صیام کا ایک بہت بڑا انعام ، اس میں مومن کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ اگر وہ پورے اخلاص کے ساتھ ، روزے کی روح کے مطابق اس کی ادائیگی کرے، جس طرح بارش کے بعد دریا بھی سیراب ہوتے ہیں اور تالاب و کنویں بھی ، ہر کوئی اپنی استعداد کے مطابق بھر جاتا ہے۔ یہی رمضان المبارک کی فضیلت ہے۔ اس ماہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و انوار کی بارش برساتا ہے ۔ قرآن کریم میں بار بار روزے کو تقویٰ سے جوڑا گیا ہے ، جس نے روزے کا حقیقی مقصود پالیا، وہی متقین کی فہرست میں شامل ہوگیا ۔ تقوی ٰبڑی پیاری چیز ہے ، تقویٰ جسے عرف عام میں پرہیزگاری، یا اللہ کا ڈر و خوف کہا جاتا ہے در حقیقت اللہ کی محبت ہے، جس کے دل میں یہ محبت موجزن ہو گئی گویا کہ کامیابی اس کو حاصل ہوگئی۔
کلام پاک میں جگہ جگہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے انعامات کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ’’ جو کوئی اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے ، اللہ اس کے لیے (مشکلات سے ) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے ۔‘‘(65:2)ایک اور خوشخبری ملاحظہ کیجئے۔ ’’جنت متقین کے قریب لائی جائے گی ۔‘‘(50:31)دراصل تقوی ٰہی وہ صفت ہے، جس کی بڑھوتری کی کوشش ، ساری عبادات کا حاصل ہیں۔ اللہ کے ہونے اس کے دیکھنے کا احساس اور اس سے بڑھ کر جوابدہی کا ڈر و خوف اگر اندر تک سرایت کر جائے تو ہر برائی، گناہ و معصیت سے رکا جا سکتا ہے ۔ یہ وہ اندیکھی طاقت ہےجو ہر طرح کی دست درازی سے روکتی ہے ۔ ہر غلط امور سے صرف رب کی رضا کی خاطر بچا جاسکتا ہے۔
تقویٰ اللہ کی ہر دم موجودگی کا وہ احساس ہے جو زندگیوں میں تبدیلی کا باعث بن کر آخرت کی تیاری ، بھلائی اور کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے ۔لیکن ہماری کم فہمی ہے کہ ہم نے اسے صرف ماہ صیام سے مشروط کردیاہے۔ حالانکہ یہ تو بارہ مہینے کا سیکھنے ، سمجھنے اور عمل صالح کرنے کا قانون ہے ۔ ماہ صیام اور نزول قرآن مجید کا تعلق گہرا بھی اور مضبوط بھی ۔ کیونکہ قرآن کریم کے نزول کے مہینے کو ہی اللہ نے شہر رمضان بنایا ، جس رات نزول ہوا اسے لیلتہ القدر کا اعلیٰ ترین مقام ملا اور جس قلب پر نازل ہوا اسے’’ قلب اطہر‘‘فرما دیا گیا۔ یہ ہدایت ہے ، فرقان ہے، حکمت و دانائی سے روشناس کرانے آ یا ہے۔ قرآن کریم تو وہ مقناطیس ہے جو اپنے قاری کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اللہ سے جوڑ کر اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔
یہ قرآن کا اعجاز ہے جو ہر مرتبہ اپنے پڑھنے والے پر نت نئے معنی کھولتا ہے۔ یہ ایسی رہنمائی فرماتا ہے کہ دنیا ہی اس کے لیے جنت بن جائے ، وہ بندے کو حقوق و فرائض کی ادائیگی کا ایسا طریقہ سکھاتا ہے، جس میں اپنے حقوق کی کمی کوتاہی کو تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن دوسرے کے فرائض سے ہرگز اعراض نہیں کیا جاسکتا۔ اخلاق ،شائستگی ، ایثار ہر پہلو پر رہنمائی و ہدایت کا سلسلہ جاری ہے، جس طرح درخت اپنی جڑوں سے وابستہ رہ کر ہرا بھرا اور ترو تازہ رہتا ہے۔
اسی طرح مسلمان بھی اپنے اصلی سرچشمے قرآن کریم سے مضبوط تعلق قائم رکھ کر شاداب رہتا ہے۔ اس کا اکرام اس طرح کیجیے کہ اپنے اندر پاکیزگی و طہارت اختیار کیجیے۔ رمضان المبارک بخشش اور مغفرت کی بشارت لے کر آتے ہیں۔ لہٰذا اس ماہ مبارک میں اللہ سے، قرآن سے اپنا رشتہ ازسرنو استوار کریں اور ان ٹھنڈی اور پر کیف ایام سے قبل ضروی کاموں سے فراغت حاصل کرکے لمحہ لمحہ سے مستفید ہونے کی کوشش کیجیے۔