جنیوا/ برسلز( حافظ اُنیب راشد ) اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) کے 55ویں اجلاس کے موقع پر منعقدہ ایک سیمینار میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے مقررین نے مقبوضہ کشمیر میں سیاسی اختلاف کو دبانے کے لیے عدلیہ کے غلط استعمال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کمیونٹی ہیومن رائٹس اینڈ ایڈووکیسی سنٹر کے زیر اہتمام سیمینار سے معروف بین الاقوامی ماہرین قانون بشمول ایڈوکیٹ احمر بلال صوفی، بیرسٹر تنویر منیب،الطاف حسین وانی رونالڈ برونز، مزمل ٹھاکر اور دیگر نے خطاب کیا۔عالمی برادری سے کشمیر کی صورتحال کا موثر نوٹس لینے پر زور دیتے ہوئے مقررین نے زور دیا کہ عالمی برادری کے لیے ضروری ہے کہ وہ کشمیریوں کے خلاف عدلیہ کو ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالے۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے خلاف عدالتی نظام کو ہتھیار بنانے سے نہ صرف ہندوستانی عدلیہ کی آزادی سلب ہوئی ہے بلکہ پورے ہندوستانی نظام انصاف پر سیاہ دھبہ پڑ گیا ہے۔کشمیری قیدیوں کے منصفانہ ٹرائل سے انکار پر روشنی ڈالتے ہوئے، پینلسٹس نے بھارتی عدلیہ کی غیر جانبداری پر شدید شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ اور جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 10 کا حوالہ دیتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ان بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق، ہر قیدی اس وقت تک ایک غیر جانبدارانہ اور شفاف سماعت کا حقدار ہوتا ہے جب اس کے حقوق خطرے میں ہوں۔"انہوں نے زور دے کر کہا کہ منصفانہ ٹرائل کا حق، جسے بین الاقوامی سطح پر ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، انصاف اور جمہوریت کا ایک لازمی ستون ہے۔کشمیر کے اندر اور باہر مختلف جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو درپیش سنگین صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے مقررین نے کشمیر میں سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کے منصفانہ ٹرائل سے انکار پر افسوس کا اظہار کیا۔انہوں نے حریت رہنماؤں، انسانی حقوق کے محافظوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کو گرفتار کرنے اور عدالت میں اپنے دفاع کے مناسب مواقع کے بغیر انہیں طویل قید میں رکھنے پر بھارتی حکومت کی مذمت کی۔انہوں نے ہندوستانی عدالتوں میں ججوں کے طرز عمل پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے کچھ جج حضرات انصاف کے غیرجانبدار ثالثوں کے بجائے مقدمہ چلانے یا پولیس افسران کی طرح کام کرتے ہیں۔کشمیریوں کے تئیں بھارتی عدلیہ کے متعصبانہ رویے کا ذکر کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ کشمیری قیدیوں کے کیس کی سماعت کے دوران بھارتی عدالتیں انصاف کو یقینی بنانے کے لیے مطلوبہ غیر جانبداری کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیری رہنماؤں کے خلاف دہائیوں پرانے مقدمات کا دوبارہ کھلنا عدالتوں کی سیاست کرنے کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ "عدلیہ موجودہ حکومت کے ایجنڈے کے مطابق کام کرتی ہے جو خطے میں ہر قسم کے اختلاف کو کچلنا چاہتی ہے۔