• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ہارون نعیم مرزا… مانچسٹر
(پہلی قسط)
الیگزینڈر دی گریٹ دنیا جسے سکندراعظم کے نام جانتی ہے 356قبل مسیح میں یونان کی ریاست مقدونیہ کے شہر پیلا میں پیدا ہوا۔ دنیا سکندر کو صرف ایک حکمران، بادشاہ اور سپہ سالار کے طور پر تو ضرور جانتی ہے لیکن دنیا کے بہت کم مورخین نے سکندر کی پیدائش اور بچپن کے بارے میں لکھا۔ مورخین نے دنیا کو یہ نہیں بتایا کہ بچپن میں وہ بچہ جو صرف کتابوں کی طرف رجحان رکھتا تھا، وہ ایک دن دنیا کا عظیم سپہ سالار بنا جس کے بارے میں اس وقت کے کمانڈرز، امراء رائے دیتے تھے کہ یہ کبھی بھی اچھا بادشاہ، سپہ سالار نہیں بن سکتا یا اپنے والد کی طرح کبھی بھی مرد میدان نہیں بن سکتا، اس نے ایک دن دنیا کی ایک بہت بڑی سلطنت قائم کی۔ سکندر کا والد فلپ دوم (فیلقوس) پہلے پہاڑی مقام آئی گائی میں رہتا تھا لیکن پھر اس نے جھیل کے کنارے سمندر سے کچھ فاصلے پر ایک اونچی وادی میں پیلا شہر تعمیر کروایا جس پر کھڑے ہو کہ وہ عظیم شاہراہ نظر آتی تھی جس کو ایران کے بادشاہ خشیار شا نے ایک صدی قبل تعمیر کروایا تھا اور اسی راستے سے وہ مقدونیہ میں داخل ہوا اور اس کو فتح کیا۔ سکندر کی تربیت صحیح معنوں میں اس کی والدہ اولمپیاس نے کی جو اس کے والد کی چوتھی بیوی تھی۔ سکندر کو اپنے دور کے بہترین اتالیق لیونی دس، لسی میچس اور مشہور زمانہ فلسفی ارسطو جیسے اساتذہ نصیب ہوئے جنہوں نے صحیح معنوں میں سکندر کی بہترین تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔ سکندر کی والدہ نے سکندر کیلئے ان تعلیمی ساتھیوں کو چنا جو مختلف طبقات کے لوگ تھے سکندر خود کتابوں کا کیڑا تھا مطالعہ کا شوقین تھا اپنے وقت کے مشہور شاعر ہومر کی کتاب ہر وقت اس کے بغل میں دبی رہتی تھی۔ سکندر کے ہر وقت مطالعہ کی عادت سے سکندر کا باپ بھی اس سے تنگ تھا اور بارہ تیرہ سال کی عمر میں وہ کہتا تھا میدان جنگ میں بھی آیا کرو۔ سکندر کو روشنی کے نمودار ہونے سے قبل اٹھا دیا جاتا تھا اور سب سے پہلا کام محل سے لے کر قبرستان تک ایک ہزار قدم دوڑنا ہوتا تھا غلام بھی اس کے ساتھ ہوتے تھے لیکن کبھی غلام اس کو ہرا نہیں سکے ظاہر سی بات ہے وہ غلام جو تھے دوڑ سے واپسی پر روزانہ وہ سیدھا محل سے قربان گاہ جاتا اور جلتی ہوئی آگ میں اپنے ہاتھ سے خوشبوئیں ڈال کر سورج کا خیرمقدم کرتا تھا۔ خوشبوئیں عربستان سے منگوائی جاتی تھیں اور سکندر کو ان خوشبوؤں سے بہت چڑ تھی بعدازاں سکندر کو ناشتہ دیا جاتا، ناشتے میں اس کے استاد لیونی دس کہتے ریچھ کی انتڑیاں اور جنگلی سور کا ہڈیوں کا گودا کھاؤ اس سے تم میں طاقت پیدا ہوگی جبکہ ماں کی کوشش ہوتی کہ اس کو شہد یا دودھ کا پیالہ دیا جائے لیکن کبھی بھی ماں کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی اس کے بعد سکندر کو تیغ زنی کے لیے میدان میں پہنچنا ہوتا تھا وہاں اس کے اتالیق نگرانی پر موجود ہوتے اور روزانہ ایک نمائشی جنگ کا اہتمام کیا جاتا بطلیموس ہمیشہ سکندر پر سبقت لے جاتا اور طنزیہ جملے سکندر پر ضرور اچھالتا تھا کیونکہ وہ بھی خود کو ایک شاہی خون سمجھتا تھا لیکن کچھ عرصے بعد ہی بطلیموس کی ناکامی کا دور شروع ہوا اور سکندر نے اس کی ڈھال توڑ کر اکڑ نکال دی۔ سکندر کو دوڑ میں بھی حیرت انگیز کمال حاصل تھا سکندر نے13 سال کی عمر میں پہلی دفعہ والد کی غیر موجودگی میں ایشیا سے آئے ہوئے ایرانی سفیروں کا اپنی ماں کے کہنے پر استقبال کیا۔ سکندر نے تجسس کے مارے ان کے گھوڑوں، سامان اور لباس پر اتنے سوالات کیے، یہاں تک کہ بیٹھنے تک کا نہ کہا جس بنا پر ماں اولمپیاس نے سکندر پر شدید غصہ اور ناراضگی کا اظہار کیا، بعد میں سکندر کو سفیروں کے ساتھ گفتگو کے آداب سکھائے۔ سکندر13 سال کا ہوا تو اس کو پیلا سے دور تعلیم و تربیت کے لیے ارسطو کی تجربہ گاہ میزا کے مندر جو خاص کر صرف سکندر کے لیے بنائی گئی تھی میں بھیجا گیا۔ یہاں سکندر نے طب اور سیاسیات کی تعلیم حاصل کی، یہیں سکندر نے ہومر کی داستان ٹرائے پر بحث و مباحثہ کیا اور یہاں ہی سکندر نے دنیا کا نقشہ دریافت کیا جو تاریخ کے بقول ہیکاٹائیس نے تیار کیا تھا۔ اسی نقشے میں دنیا مشرق کے وہ تمام دروازے دکھائے گئے تھے جو کہ سکندر کی خواہش بنی وہ ان کو سر کرے اسی نقشے میں مشرق کے وہ بلند و بالا پہاڑ دکھائے گئے تھے جو سکندر کے بقول دیوتاؤں کا مسکن ہے اسی درسگاہ میں سکندر کو ہیروڈوٹس کی تاریخ مشرق کے دور افتادہ شہر بابل کے بارے معلوم ہوا اور سکندر کو فتح کرنے کا جذبہ پیدا ہوا، اگر یہ کہا جائے کہ سکندر کو ایشیا ایران مصر کی عظیم سلطنت کا خیال ارسطو نے دیا تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ سکندر ابھی اسی درسگاہ میں بحری قوت اور دنیا کی عظیم سلطنت کے نظام ہائے حکومت کے مطالعہ میں ڈوبا ہوا تھا کہ فلپ دوم فیلقوس کا ایک قاصد میزا پہنچا اور سکندر کو اس کے والد کا پیغام پہنچایا کہ آپ کے والد آپ کو فوراً فوج میں بلا رہے ہیں جو سمندر کے کنارے کوچ کرتی جا رہی ہے سکندر نے انکار کر دیا میں کسی بھی جنگ میں ابھی شامل نہیں ہونا چاہتا لیکن قاصد نے عرض کیا کہ جناب یہ شاہی فرمان ہے اور آپ کو جانا ہی ہو گا اس کے بعد کبھی بھی سکندر کو پھر مطالعہ کے لئے واپس میزا آنا نصیب نہ ہوا اس جنگ کے دوران کمانڈر ہفا اسشن سکندر کی موجودگی میں جبکہ اسے نہیں پتا تھا کہ سکندر موجود ہے کہا کہ سکندر کا باپ اپنے بیٹے کی زنانہ عادتوں اور کتابوں کے شوق کی وجہ سے خوش نہیں ہے اور وہ ایک ساحرہ اولمپیاس کا بیٹا ہے، تمام لوگوں کا خیال تھا کہ سکندر اس کو سزا ضرور دے گا جب ہفا اسشن کو معلوم ہوا کہ سکندر اس کے سامنے موجود ہے تو بہت پریشان ہوا لیکن سکندر نے کہا کہ میں اپنی ذات پر تنقید کی بنیاد پر کسی بھی خون خرابہ کو پسند نہیں کرتا اسی کمانڈر کو سکندراعظم نے جنگ سے واپسی پر اپنے لیے مانگ لیا اسی جنگ کے دوران ہی سکندراعظم کے والد نے سکندر کو نائب السلطنت بنایا اپنی شاہی مہر جس پر شیر کی چھوٹی سی تصویر بنی ہوئی تھی اس کے حوالے کی اور اس کو اپنی غیر موجودگی میں مقدونیہ کے سارے اختیارات دیئے۔(جاری ہے)
یورپ سے سے مزید