• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہیں لگ رہا یہ حکومت ڈیلیور کرسکے گی، خود گر جائیگی، فضل الرحمٰن

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ مجھے نہیں لگ رہاکہ یہ حکومت ڈیلیورکرسکے گی، عوام سڑکوں پر آئیں گے تو حکومت خودگر جائے گی، یہ حکومت مکمل اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں ہوگی، فیصلے وہی کریں گے انہی کے فیصلوں کے تحت پالیسیاں بنیں گی، انہی کے فیصلوں کے تحت قانون سازیاں ہوں گی، پارلیمنٹ ایک ربڑ اسٹمپ ہوگی، نوازشریف سے ملاقات میں بتایا اُنہیں نیا لاڈلہ سمجھتا ہوں، جماعت نے فی الوقت ایسا فیصلہ نہیں کیاکہ ہم پی ٹی آئی سے مل کرکوئی تحریک چلارہےہیں، پی ٹی آئی کے رویے میں تبدیلی نظر آ ر ہی ہے جو اچھی بات ہے، سیاست میں مثبت رویہ ہے اس طرح ہم آگے بڑھتے ہیں تو مضائقہ نہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام میں نمائندہ خصوصی عبدالقیوم صدیقی اور سینئر صحافی حسنات ملک نے بھی گفتگو کی۔ پروگرام کے آغاز میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے میزبان شاہ زیب خانزادہ نے کہا کہ دباؤ اور دھمکیوں سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے6 ججز کے خط کے بعد تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کریں گے۔جس وقت جسٹس شوکت عزیز صدیقی ایجنسیوں کے حوالے سے ایسے الزامات لگا رہے تھے تو عمران خان اور تحریک انصاف ان پر سوالات اٹھا رہے تھے۔آج جب ن لیگ کی حکومت میں اسلام آباد کے 6 ججز نے ایجنسیوں پرایسے ہی الزامات لگائے ہیں تو ن لیگ کی طرف سے ان پر تنقید کی جارہی ہے۔ تحریک انصاف اس معاملے پرسخت رد عمل دے رہی ہے ۔نمائندہ خصوصی عبدالقیوم صدیقی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت مناسب ہوگاکہ وہ والے واقعات اور اس کے بعد ہونے والے واقعات جو کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی طرف سے الزامات لگائے گئے ہیں ان کی تحقیقات ہوں۔سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کبھی اس طرح نہیں دیکھا کہ اتنی ہم آہنگی اور ایگزیکٹو اور عدلیہ میں ہے جتنی اس وقت ہے۔اس وقت بہتر ہوتا کہ ملاقات سے پہلے ججز اپنا کوئی اعلامیہ جاری کرتے اور وزیراعظم ایک خط لکھتے۔بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ ایشوز کو صرف ہائی لائٹ کرنا مقصد تھا تاکہ متعلقہ اتھارٹیز جو اثر انداز ہورہی ہیں وہ defensive ہوجائیں۔ بعدازاں پروگرام میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے شرکت کی ۔ شاہزیب خانزادہ: حکومت گرانا اور نئے الیکشن کروانا آپ کا بنیادی مقصد نہیں ہے؟ مولانا فضل الرحمن: یہی تو مسئلہ ہے کہ کیا یہ تسلیم کیا جائے گا کہ یہ دھاندلی کی حکومت ہے، جب تسلیم ہوجائے گا اور عوام اپنی رائے دیں گے تو خودبخود حکومت گرجائے گی اور حکومت ایسی مستحکم نہیں ہے کہ چل سکے گی، ایک انتہائی کمزور حکومت ہے لیکن ایسی کمزور حکومتیں بنانے کا منصوبہ کون بناتا ہے یہ منصوبہ بند ی کہاں ہوتی ہے، یہ مفاد کس کا ہوتا ہے اس پر ہمیں زیادہ فوکس کرنا چاہئے، ہمیں اس مرض کی دوا کرنی چاہئے کہ کم از کم جو حق رائے دہی رکھتے ہیں وہ بھی مطمئن نہیں ہیں کہ ہم نے کچھ فیصلے دیئے بظاہر کچھ آئے، جو جیت گئے ہیں وہ بھی مطمئن نہیں ہیں، جو ہار گئے ہیں وہ بھی احتجاج کررہے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ: آپ کی اور تحریک انصا ف کی مشترکہ جدوجہد ہوسکتی ہے؟، عمران خان نے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ آپ کو دعوت دی جائے گی 23مارچ والے جلسے کی؟ مولانا فضل الرحمن: مجھ سے اس حوالے سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔شاہزیب خانزادہ: رابطہ کیا جاتا ہے تو آپ consider کرسکتے ہیں؟ مولانا فضل الرحمن: اگر کی بات پھر اگر پر چھوڑ دیں۔ شاہزیب خانزادہ: آپ کا اعتراض سب سے زیادہ کس صوبے کیلئے ہے؟ مولانا فضل الرحمن: تمام صوبوں کیلئے ہے، پنجاب کیلئے بھی ہے، سندھ کیلئے بھی ہے، خیبرپختونخوا کیلئے بھی ہے، بلوچستان کیلئے بھی ہے۔ شاہزیب خانزادہ: ذاتی طور پر آپ کو کہاں لگتا ہے کہ آپ زیادہ نشستیں لیتے اگر دھاندلی نہ ہوتی؟ مولانا فضل الرحمن: آپ چھوڑیں میرے decision کو۔ قوم کی بات کرو، عوام کی بات کرو، حق رائے کی بات کرو، یہ کیا مطلب کہ ہم ایک مسئلہ کو پھر ذات کی طرف لے جاتے ہیں یا ایک پارٹی کی طرف لے جاتے ہیں کہ چونکہ فلانی پارٹی ہار گئی ہے تو اس لیے وہ احتجاج کررہی ہے، میں نے نہ 2018ء میں صرف اپنی پارٹی کے حوالے سے احتجاج کیا نہ آج میں اپنی پارٹی اور اپنی ذات کے حوالے سے احتجاج کررہا ہوں، یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور قومی مسئلے کے انداز میں ہم اس کوا ٹھائیں گے۔شاہزیب خانزادہ: 2018ء کے بعد آپ نے احتجاج کیا اور جو پی ڈی ایم حکومت بنی اس کے بننے کی وجہ آپ کا احتجاج تھا، ظاہر ہے سڑکوں پر توانا آوا ز آپ ہی کی تھی اسی کی وجہ سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو سپورٹ ملی، پی ڈی ایم کا اتحاد بنا، مگر مسئلے کا حل تو پارلیمنٹ کے اندر سے ہی نکلا، اب بھی راستہ پارلیمنٹ کے اندر سے ہی نہیں نکلے گا؟ مولانا فضل الرحمن: اس وقت جو صورتحال تھی بڑی معروضی قسم کی تھی، اس کو آپ اصول کے تابع لے جائیں گے تو پھر حکمت عملی کا مسئلہ آئے گا، حکمت عملی ہماری صحیح ثابت نہیں ہوئی، میں ان کو پیٹتا رہا کہ آپ تحریک کے زور سے حکومت کو چلتا کریں، آپ پارلیمنٹ سے استعفے دیدیں، اتنے استعفے ہوں گے کہ پھر بقیہ جو سیٹیں ہوں گی وہ حکومت نہیں چلاسکیں گی دوبارہ الیکشن کی طرف جانا پڑے گا، لیکن جب سب دوستوں نے یہ طے کرلیا کہ ہم تو، اب باپ پارٹی بھی ہماری طرف آگئی، ایم کیو ایم بھی ہماری طرف ہے اور وہ عدم اعتماد میں ووٹ دینے کیلئے تیا ر ہیں تو پھر ظاہر ہے اتنے بڑے اتحاد کو فوراً توڑنا جبکہ یہ ٹھیک ہے استعفوں کی صورت میں ہمیں بہت اچھی کامیابی ملتی لیکن جو حکمت عملی انہوں نے اپنائی ہم نے اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے اس وقت اپنی رائے قربان کی اپنے دوستوں کیلئے لیکن آج ان کو چاہئے تھا کہ اپنی حکومت کو قربان کردیتے ہماری اس رائے پر جب 2018ء میں یہی مینڈیٹ مسلم لیگ کے پاس تھا۔
اہم خبریں سے مزید