• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’فتحِ مکہ‘‘ جب اسلام کیلئے دینِ حق اور غالب قرار پایا

ڈاکٹر نعمان نعیم

یوں تو دین اسلام سے پہلے ﷲتعالیٰ نے مختلف وقفوں کے بعد مختلف ناموں سے مختلف پیغمبروں پر آسمانی مذاہب کا نزول فرمایا اور ان امتوں کی رہنمائی کیلئے بعض انبیائے کرامؑ پر وحی کے ساتھ ساتھ مختلف چھوٹے بڑے صحیفے بھی نازل فرمائے اور بعض مخصوص انبیاءؑ پر تین مختلف آسمانی کتابیں بھی نازل فرمائیں جن کے نام زبور، تورات اور انجیل ہیں کہ بالترتیب حضرت داؤدؑ، حضرت موسیٰ ؑاور حضرت عیسیٰ ؑپر نازل ہوئیں۔ ان تمام آسمانی مذاہب کے نزول کے وقت مذاہب کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ﷲتعالیٰ نے ان میں سے کسی کیلئے بھی عالمگیر ہونا طے ہی نہیں فرمایا۔ 

یہی وجہ ہے کہ اپنے وقت کی تکمیل کے بعد یہ مذاہب اپنی جگہ برقرار نہ رہ سکے ان تمام مذاہب کے بعد آخر میں ﷲتعالیٰ نے امام کائنات فخرالرسل ہادیِ عالم حضرت محمد ﷺ پر دین سلام کا نزول فرمایا اور اس کے متعلق اپنا فیصلہ بھی صادر فرمادیا : ’’دین ﷲتعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘(سورۂ آل عمران) نبی اکرم ﷺ کے متعلق یہ بھی واضح فرمادیا ’’(لوگو!) محمد (ﷺ)تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن آپ ﷲتعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے(سلسلے کو) ختم کرنے والے۔‘‘ (سورۂ احزاب) خود ہی آپﷺ سے یہ کہلوایا ’’آپ کہہ دیجیے! کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف ﷲ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں۔‘‘ (سورۂ اعراف)

ایک موقع پر فرمایا گیا:وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا، تاکہ اسے اور تمام مذاہب پر غالب کردے۔‘‘ (سورۂ صف) لیکن اس کے باوجود بدنصیب کفار مکہ، جنہیں سب سے پہلے اسلام کو متعارف کرایا گیا، نے کم و بیش 21سال تک یکطرفہ طور پر اپنے مختلف قولی و فعلی حربوں سے اسلام کے اس مینارۂ نور کو بجھانے کی کوشش کی۔ لیکن اپنے تمام مظالم کے ساتھ بالآخر تمام کے تمام ظالمین مظلومیت کے سامنے مات کھاگئے اورفتح مکہ جسے بلاشک و شبہ! ظلم کے خاتمے کا موقع بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

اب اسلام کو ظہور میں آئے ہوئے اکیس سال کا کم و بیش عرصہ گزر گیا، جو پورا عرصہ کفار سے نبردآزما ہونے میں گزرا، ابتدائے اسلام میں کفار غالب رہے اور مسلمان مغلوب لیکن مدینہ منورہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو امن و استحکام کی صورت میں قوت اور طاقت ملی نتیجتاً رفتہ رفتہ کفار کمزور اور مسلمان طاقت حاصل کرتے گئے، یہاں تک کہ 08ھ میں ایک خاص واقعہ صلح حدیبیہ میں جب امن کا معاہدہ طے ہوا تھا تو اس میں ایک قبیلہ مسلمانوں کا حلیف بنا ،جس کا نام بنو خزاعہ تھا، جبکہ کفارمکہ کا حلیف بنی بکر نامی قبیلہ بنا ،اس معاہدے کے تحت یہ دونوں قبائل جو ایک دوسرے سے عداوت رکھتے تھے، ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے مجاز نہیں تھے، لیکن 8ھ شعبان کے مہینے میں بنی بکر نے رات کی تاریکی میں بنوخزاعہ پر حملہ کرکے اپنی پرانی عداوت کا اظہار کیا اس واقعے کی بنیاد پر جب نبی ﷺکو علم ہوا اور آپ مکہ والوں پر معاہدہ امن کی خلاف ورزی پر مشرکین مکہ کے خلاف حملے کی نیت سے صحابہ کرامؓ کی معیت میں مکہ مکرمہ کی طرف سفر اختیار کرتے ہوئے نکلے۔

آپﷺ سے کفار مکہ کی طرف سے عفوودرگزر اور صلح کی درخواست کی گئی، لیکن نبیﷺ نے اپنے سفر مبارک کو جاری رکھا، یہاں تک کہ آپﷺ نے مکہ مکرمہ کے قریب پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا۔ کفار کی طرف سے مختلف لوگ صلح کی غرض سے آئے جن میں ابوسفیان بھی تھے، انہوں نے آکر اپنے اسلام قبول کرنے کا اظہار کیا جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ کفارمکہ ہمت ہار چکے ہیں اور جنگ کی صورت میں خون بہائے بغیر ﷲتعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو مسلمانوں کے ہاتھوں فتح کروا دیا۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب بغیر کسی رورعایت کے کفارمکہ سے اُن کی پہنچائی جانے والی اذیتوں جس میں مدینہ پر باربار پر حملہ، قبائل عرب کو مشتعل کرنے کا حربہ، آنحضرتﷺ کے قتل کرانے کی خفیہ سازش، اور مسلمانوں کو شدید مجروح اور تباہ حال بنا دینے والے سلوک کا گِن گِن کر بدلہ لیا جانا۔ 

یقیناً اُن کی ان ناپاک جسارتوں کی قیمت اُن کا خون بہا کر ہی حاصل کی جاسکتی تھی، جبکہ مسلمانوں میں سے ایک صحابی کی طرف سے یہ آواز بھی فضا میں بلند ہوئی کہ ’’آج گھمسان (بدلہ لینے) کا دن ہے، آج کعبہ حلال کردیا جائے گا ۔آج ﷲ قریش کو ذلیل کردے گا۔‘‘ (بخاری)لیکن قربان جائیے! نبیﷺ پرآپ نے اس جملے کے جواب میں ارشاد فرمایا ’’آج رحم و معافی کا دن ہے۔ آج قریش کو ﷲتعالیٰ عزت عطا فرمائے گا۔آج کعبہ کی عظمت کو بڑھائے گا۔‘‘ اور یہ اعلان فرمادیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے یا ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے لے یا اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے یا خانہ کعبہ میں داخل ہوجائے اُسے امن دے دیا جائے گا۔(فتح الباری)

خود رسول ﷲ ﷺ مکہ مکرمہ میں اس شان سے داخل ہوئے کہ سرمبارک عبدیت کے غلبے سے بالکل جھک گیا تھا، یہاں تک کہ قریب تھا کہ آپ کی ٹھوڑی مبارک اونٹنی کے کجاوے سے ٹکرا جائے۔ آپﷺ اس وقت سورۂ فتح کی آیات تلاوت فرما رہے تھے۔(ابن کثیر )

نبی اکرمﷺ کعبے میں موجود تین سوساٹھ بتوں کو اپنے دستِ مبارک سے گراتے ہوئے قرآن مبارک کی آیت (سورۂ بنی اسرائیل ) ’’اور حق (بس اب) آہی گیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل تھا ہی مٹنے والا۔‘‘ کی تلاوت فرما رہے تھے۔(سیرت ابن ہشام ، زادالمعاد )

آپﷺ نے چند ازلی بدبختوں کے قتل کا حکم ضرور عنایت فرمایا ، لیکن عام کفار کو یہ کہتے ہوئے مخاطب فرمایا اے اہل قریش! تمہیں کیا توقع ہے کہ اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ انہوں نے جواب دیا ہم اچھی امید رکھتے ہیں، آپ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں، اور شریف و کریم کے بیٹے ہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف ؑنے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا ’’آج! تم پر کوئی الزام نہیں ،جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘(زادالمعاد)

نبی اکرمﷺ نے اتنی زبردست مکمل فتح کو اپنی طرف منسوب کرنے کی بجائے مسلمانوں او رکفار کے سامنے اس بات کا اعلان فرمایا کہ ’’ایک معبود کے سوا اور کوئی پروردگار نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی تمام جتھوں کو تنہا شکست دی، یاد رکھو! تمام مفاخر، تمام انتقامات، خون بہا سب میرے قدموں کے نیچے ہیں، صرف کعبہ کی تولیت اور حجاج کی آب رسانی اس سے مستثنیٰ ہیں، اے قوم قریش! اَب جہالت کا غرور اور نسب کا افتخار خدا نے مٹا دیا، تمام لوگ آدم کی نسل سے ہیں، او رآدم مٹی سے تخلیق کیے گئے۔ اس کے بعد آپﷺ نے سورۂ حجرات کی یہ آیت تلاوت فرمائی’’اے لوگو! ہم نے تم (سب) کو ایک مرد او رایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف قومیں او رخاندان بنا دیا ہے کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک تم میں سے پرہیزگار ﷲ کے نزدیک معززتر ہے، بے شک ﷲ خوب جاننے والا ہے۔‘‘

سیرت کے طلباء فتح مکہ کا مطالعہ کرتے ہوئے انگشت بدنداں ہو کر حیرانگی کی حالت میں رُک جاتے ہیں، انہیں یہ بات روک دیتی ہے:(۱) یہ کیسے نبی ہیں، جو فتح حاصل ہونے کے بعد اس فتح کو اپنی ذات کی طرف منسوب کرنے کی بجائے ﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب فرماتے ہیں جبکہ اس فتح کیلئے آپ نے مسلسل اکیس سال تک ہرہر حوالے سے صعوبتیں برداشت کیں، آج جب کامیابی کا موقع آیا تو دنیا کو یہ دکھایا کہ میں کتنا متواضع ہوں کہ اس زبردست فتح کو اپنی ذات کی طرف منسوب کرنے کیلئےاپنی ذات کو تیار ہی نہیں پاتا ہوں۔ 

اس میں آپﷺ کے متبعین کیلئے زبردست سبق ہے جو معمولی معمولی کامیابیوں پر اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہیں اور گھمنڈ سے اس کا ذکر کرتے ہیں۔(۲) یہ کیسے نبی ہیں کہ فاتح بن کر داخل ہورہے ہیں، اپنے دشمنوں پر غالب آرہے ہیں،بدلہ لینے کا اس سے بہتر کوئی موقع بھی ہاتھ نہیں آسکتا اور انسانی فطرت بھی یہی ہے ایسے مواقع پر وہ ہلاکت و تباہی کا وہ اندھیر مچاتا ہے کہ انسانی تاریخ خود اس کے سامنے شرمندہ ہوجاتی ہے ۔