انتخابات کے بعد نئی حکومت کی آمد آمد ہے۔ انتخاب جیت کر ایوان میں پہنچنے والے ارکان کو ٹی وی کے چینل مسلسل ُمنتخِب (خے کے نیچے زیر) کہہ رہے ہیں جو بالکل غلط ہے۔ منتخب میں اگر ’خ‘ کے نیچے زیر بولا جائے تو اس کا مطلب ہوگا : جو انتخاب کرے ، انتخاب کرنے والا۔ لیکن جس کا انتخاب کیا گیا ہو اس کا درست تلفظ مُنتخَب (خے پر زبر) ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ عربی الفاظ کے تلفظ میں بہت احتیاط کرنی چا ہیے کیونکہ عربی میں زیر اور زبر کے فرق سے بعض اوقات معنی کچھ کے کچھ ہوجاتے ہیں۔
گویا ووٹ دینے والے منتخِب (’خ ‘کے نیچے زیر) ہوتے ہیں اور جن لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ منتخَب (’خ ‘پر زبر) ہوتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے منتظِر اور منتظَر کے تلفظ میں احتیاط نہیں کی جاتی اور علامہ اقبال کے مصرعے :
کبھی اے حقیقتِ منتظَر نظر آ لباس ِ مجاز میں
میں منتظَر (’ظ‘ پر زبر) کو منتظِر (’ظ‘ کے نیچے زیر) پڑھ لیا جاتا ہے اور مفہوم بالکل الٹ جاتا ہے ۔ منتظِر یعنی جو انتظار کرے اور منتظَر جس کا انتظار ہو۔ یہی گھپلا مہذَّب اور مہذّ ِب میں ہوتا ہے بلکہ ایسے کئی عربی الفاظ اردو میں مستعمل ہیں جن میں زیر اور زبر کے فرق کی وجہ سے مفہوم الٹ جاتا ہے ، جیسے مترجَم اور مترجِم یا مصوِّر اور مصوِّر۔
ان الفاظ پر ہم اِنھِیں کالموں میں کچھ عرض کرچکے ہیں لہٰذا تکرار سے بچتے ہوئے عرض ہے کہ ووٹ لے کر آنے والی حکومت منتخَب ہوتی ہے اور ارکان بھی منتخَب ہوتے ہیں، ’خ ‘پر زبر کے ساتھ۔ اسی طرح نَو منتخَب کی ترکیب ہے، ’خ‘ پر زبر کے ساتھ، یعنی جس کا نیا انتخاب ہوا ہو۔ احسان دانش نے لغا ت الاصلاح میں لکھا ہے کہ منتخَب شدہ لکھنا یا کہنا بھی غلط ہے کیونکہ منتخَب خود اسم ِ مفعول ہے اس لیے اس کے ساتھ شدہ کا اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں انتخاب شدہ کہہ سکتے ہیں۔
٭ اِستفادہ حاصل کرنا؟
اِستفادہ کا مطلب ہے کسی چیز سے فائدہ حاصل کرنا ۔ گویا لفظ استفادہ میں ’’حاصل کرنا ‘‘کا مفہوم موجود ہے اور اسی لیے’’ استفادہ حاصل کیا ‘‘ کہنا غلط ہے۔ استفادہ کیا کہنا کافی ہے۔ جیسے: اس کتاب سے بہت سے طالب علموں نے استفادہ کیا ہے۔
٭تنازُع اور مُتَنازَع
بعض لوگ اختلاف ، جھگڑا، کشیدگی، کشمکش کے مفہوم میں لفظ تنازعہ لکھتے اور بولتے ہیں یعنی آخر میں ہائے ہوّز (ہ) کے ساتھ ۔ یہ درست نہیں ہے۔ صحیح لفظ تنازُع ہے یعنی ’ز‘ (زے) پر پیش کے ساتھ (اور ’ت ‘ پر زبر ہے)۔ تنازُع دراصل تفاعُل کے وزن پر ہے۔ اسی طرح تنازُع لِلبقا درست ترکیب ہے جس کے معنی ہیں زندگی کی کشمکش، زندگی کو باقی یا قائم رکھنے کی جدو جہد۔ زندہ رہنے کے لیے درکار وسائل کو حاصل کرنے کے لیے جو مقابلہ ہوتا ہے اسے تنازُع للبقا کہا جاتا ہے۔ یہ ایک باقاعدہ علمی اصطلاح ہے اور اس کاا نگریزی مترادف ہے: struggle for existence ۔
اس سلسلے میں ایک اورلفظ استعمال ہوتا ہے اوروہ ہے متنازع۔ جس بات یا چیز پر اختلاف ہو اسے عموماً’’ مُتنازعہ ‘‘ لکھا جاتا ہے اور یہ بھی غلط ہے، اس کے املا میں بھی ’ہ‘ کا کوئی کام نہیں۔ درست املا مُتَنازَع ہوگا ، یعنی’ہ‘ کے بغیر اور زے پر زبر کے ساتھ(اور ’ت‘ پر بھی زبر )۔مُتنازَع یعنی جھگڑا کیا گیا ،اختلاف کیا گیا، وہ چیز جس پر جھگڑا یا اختلاف ہو اسے بھی متنازَع کہتے ہیں۔ جس پر جھگڑا ہو یا جو اختلاف کا موضوع ہو اسے متنازَع فیہ بھی کہتے ہیں۔
٭ چُھپنا یا چِھپنا ؟
چھپنا کے تلفظ میں لکھنؤ اور دہلی میں اختلاف ہے ۔ لکھنؤ والے ’’چھ ‘‘ کے نیچے زیر بولتے ہیں یعنی چِھپنا۔ دہلی والے میں ’’چھ‘‘ پر پیش بولتے ہیں یعنی چُھپنا۔ دونوں درست ہیں۔ فرہنگ ِ آصفیہ چونکہ دہلی میں لکھی گئی لہٰذا اس میں’’چھ‘ ‘پر پیش کے ساتھ یعنی چُھپنا درج ہے جبکہ لکھنؤ میں لکھی گئی نور اللغات میں دونوں تلفظ درج ہیں اور وضاحت بھی ہے کہ دہلی والے چُھپنا اور لکھنؤ والے چِھپنا بولتے ہیں۔ اہل علم کا خیال ہے کہ دونوں درست ہیں اور صرف کسی ایک کو درست اور دوسرے کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔