• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ایم اسلم چغتائی… لندن
اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے والا فرد، معاشرہ یا ملک کامیاب اور سرخرو ہوتا ہے۔ یہ تقدیر کو تدبیر میں بدل کرکامیابی پاتے ہیں، دنیا پر راج کرتے ہیں، مانگنے والے ہاتھ ہمیشہ خالی رہتے ہیں، دینے والے ہاتھوں میں برکت ہوتی ہے اور ان پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے، بدقسمتی سے آج ہم اخلاقی، سماجی ،معاشی اور سیاسی طور پر گر چکے ہیں، معاشی لحاظ سے پاکستان اس ریجن میں آج سب سے پیچھے ہے، عدم برداشت معاشرے میں بھی اور سیاست میں بھی ہے، مذہبی لحاظ سے ہم فرقوں میں تقسیم ہو چکے ہیں، ایک دوسرے پر معمولی سی بات پر کفر کے فتوے جاری کئے جاتے ہیں، قومیت ،اتحاد اور یکجہتی کا فقدان ہے۔ سیاسی منظر پر کوئی ایک پارٹی قومی سطح پر مقبول نہیں ، مسلم لیگ ن پنجاب، پیپلزپارٹی سندھ اور پی ٹی آئی خیبرپختونخوا تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، قائداعظم ؒ اور ان کے رفقا نے عظیم قربانیاں دیں اور بڑی جدوجہد سے دنیا کے نقشے پر ایک نئی اسلامی مملکت قائم کرکے دنیا کوحیران کردیا، برصغیر کی تاریخ کا رنگ بدل گیا مگر افسوس کہ قیام پاکستان کے 23 سال بعد ہم نے اپنی نااہلیوں اور سنگین غلطیوں سے اپنا اکثریت والا بازو مشرقی پاکستان کھو دیا جس سے دو قومی نظریئے پر کاری ضرب لگی اور آج باقی ماندہ مغربی پاکستان کو بھی نہیں سنبھال پا رہے، بچہ بچہ قرضوں میں ڈبو دیا گیا ہے، ملک آج کنگال ہے ،مہنگائی، بیروزگاری، غربت سے ہر کوئی پریشان ہے، 24 کروڑ آبادی میں سے10کروڑ سے زائد عوام آج غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، آج ہم قرضوں اور امداد پر گزارا کر رہے ہیں، قرضوں اور امداد کا صحیح استعمال نہیں ہو رہا ہے، پچھلے صرف ایک سال کے دوران 14000 ارب روپے قرض کا اضافہ ہوا ہے، آج ملک میں ہر پیدا ہونے والا بچہ 2 لاکھ 28 ہزار روپے کا مقروض ہوتا ہے ،ستم ظریفی ہے کہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے بھی مزید قرضے لینے پڑتے ہیں، آئی ایم ایف کی منتیں کرکے قرضے لئے جاتے ہیں ،کڑی شرائط قبول کی جاتی ہیں اور عوام پر مزید مہنگائی کا بوجھ ڈال دیاجاتا ہے اور آئے دن عوام پر گیس ،بجلی اور پٹرول مہنگاکر کے بم گرائے جاتے ہیں، آبادی کی شرح اس خطے میں پاکستان کی سب سے زیادہ ہے ،آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں، عوام میں تعلیم اور شعور کا فقدان ہے، سیاست دان اپنے اپنے مفادات کی سیاست کر رہے ہیں ،عوام اور ملک کی کسی کو پروا نہیں، دانشور طبقہ خاموش ہے ،کسی کو کسی کی پروا نہیں، غربت کی وجہ سے آج پیشہ ور بھکاریوں کے ساتھ ساتھ عام سفید پوش افراد بھی مانگنے پر مجبور ہوگئے ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس عوام اور ملکی ترقی اور بھلائی کے لئے کوئی منصوبہ نہیں ہے، ان کو آپس کی لڑائیوں سے فرصت نہیں، رشوت اور سفارش کے بغیر آپ کوئی کام نہیں کروا سکتے، پاکستان اور چین کا عظیم بڑا مشترکہ منصوبہ سی پیک ہے جو پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے مگر اس منصوبے کو پایہ تکمیل پر پہنچانے کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں اور بحران پیدا ہو رہے ہیں، پچھلے دنوں کے پی کے صوبے میں بشام کے مقام پر دہشت گردی کے واقعہ میں پانچ چینی انجینئرز کی ہلاکت لمحہ فکریہ ہے ،یہ حملہ پاکستان ،چین دوستی پر کاری ضرب لگانے کے لئے کیا گیا اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی نے ایک بار پھر سر اٹھالیا ہے، آپ دوست بدل سکتے ہیں مگر اپنے ہمسائے کو نہیں ، پاکستان کے چار اہم ہمسایہ ممالک جن میں دو مسلم ممالک ایران اور افغانستان ہیں اورہندوستان اورچین ہیں۔ بھارت کے ساتھ تو شروع سے ہی تعلقات بہتر نہیں رہے، دونوں ممالک کے درمیان تناؤ اور محاذ آرائی ہے۔ افغانستان کے لاکھوں مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی گئی ان کا خیال رکھا گیا اس کے باوجود افغانستان کے ساتھ تعلقات آج انتہائی کشیدہ ہیں اور افغانستان کے اندر سے دہشت گرد پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں، چینی باشندوں پر حالیہ حملے کا بھی الزام پاکستان افغانستان پر لگا رہا ہے، اس طرح دونوں ممالک کے درمیان تعلقات نچلی ترین سطح پر ہیں، سرحدی واقعات کے بعد پاکستان اور ایران کے درمیان بھی پہلی مرتبہ تعلقات خراب ہوئے جب ایران نے دہشت گردی کاالزام لگا کر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں حملہ کیا جس کے جواب میں پاکستان نے کارروائی کی، خوش آئند بات ہے کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی جلد پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ دورے کے بعد تعلقات میں بہتری آئے گی، بے لوث دیرینہ دوست ملک چین نے حالیہ دہشت گردی کے واقعہ کے بعد پاکستان سے تحقیقات پر زور دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ ایسے واقعات روکنے کے لئے پرزور اقدامات کئے جائیں۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوں تو ہم آگے نہیں بڑھ سکتے لہذا ہمیں اپنی طرف سے بھرپور کوشش کرنی چاہئے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے رہیں اور مل جل کر اپنے اپنے ملک اور عوام کی خاطر آگے بڑھیں اور محاذ آرائی سے گریزکیا جائے، دشمنی کو دوستی میں بدلنے کی کوشش کی جائے۔
یورپ سے سے مزید