فائزہ مشتاق
“باجی ایک دم تازہ سبزی ہے، لینا ہے تو اسی دام پہ لو، اس سے کم ہم نہیں دے سکتے۔“ سبزی فروش برہمی سے بولا۔۔۔۔
میرے آفس روانگی اور سبزی فروش کے آمد کا وقت عموماً ایک ہی ہوتا ہے، محلے بھر کی خواتین سبزی کے ٹھیلے کے گرد گھیرا ڈال ليتيں اور بھاؤ تاؤ کا سلسلہ شروع ہوجاتا، اونچی آوازوں کا پس منظر ہوش ربا مہنگائی ہوتی، جس نے سبزی بھی پہنچ میں مشکل بنا دی ہے۔ گھر بھرکا پورا پڑ جائے یہی کافی ہے، جتنا کماؤ اتنا ہی کم ہے، بچت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جیسے کلمات زبان زد عام ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی کی اونچی اڑان نے ہر طبقےکی آمدنی کو محدود تصور کرنے پر مجبور کر دیا ہے، ہر دوسرا شخص مہنگائی کا رونا روتے نظر آتا ہے۔ سب یہی کہتے ہیں ، بچت خال خال ہی ہو پاتی ہے ،اب تو جینا بھی دوبھر ہوتا جارہا ہے۔
حقیقت یہی ہے۔ پیسے پیڑ پہ تو نہیں اُگتے۔ اس کے حصول کے لیے مشقت کرنا پڑتی ہے۔ روز بروز بڑھتے اخراجات اپنی جگہ، مگر یہ بھی سچ ہےکہ فی زمانہ پیسہ بنانے کے ذرائع سے گھر بیٹھے دسترس بھی قدرے آسان ہو چکی ہے۔ ٹیکنالوجی کے دور نے آمدنی کی نئی راہیں، نئے طریقہ کار، نئ جہتيں متعارف کروا دیں۔ اب اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے اور انہیں بروئے کار لا کر آمدنی میں اضافہ کچھ مشکل نہیں رہا۔
مثلا اگر کوئی خاتون اچھا کھانا پکانا، سینا پرونا جانتی ہے تو ذرا سی محنت سے وہ آن لائن کام کا آغاز کرسکتی ہے جسے بتدریج کاروبار کی شکل بھی دی جاسکتی ہے۔ باہر نکلنا ضروری نہیں رہا۔ اساتذہ اور طلبہ کا تعلق مزید سمٹ کر آسان ہوگیا، قرآن کی تجوید سکھانا ہو یا کسی مضمون کی ٹیوشن دینا ہو، باآسانی آن لائن پڑھا کر اپنے لیے آمدنی کی مد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
دانشمندی کا تقاضا ہے ہر وقت شکوے شکایت کرنے کے بجائے مہنگائی کے اژدھے سے ڈرنے کی سعی کی جائے اور ہر ممکن عملی اقدامات کیے جائیں، تب ہی خاطرخواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔ دراصل بچت از خود کچھ نہیں بلکہ درست انداز سے بجٹ کا برتنا ہے۔ بجٹ کا دائرہ جتنا مناسب ہوگا اتنی ہی بچت ممکن ہوگی، اس کے لیے ماہانہ بجٹ ترتیب دیا جائے اور ماہانہ بنیادوں ہی پر اخراجات لکھے جائیں۔
غیر ضروری اشیاء کو بتدریج فہرست سے خارج کرتی جائیں، ابتدا چھوٹے اخراجات سے کرنا سہل ہوتا ہے، ایسی اشیاء جو صحت کے لیے نقصان دہ ہوں، متروک کر دینی چاہیں جیسے شکر، ميدہ، تمباکو، کاسمیٹک وغیرہ۔نیز ڈبے کی غیر ضروری مصنوعات کے بجائے گھر کی بنی اشیاء کو ترجیح دیں، کریڈٹ کارڈ کا بےجا استعمال کندھوں پہ اضافی بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ ہر ماہ بجٹ پر نظر ثانی کی عادت اپنا لیں اور غیر ضروری اشیاء کو ترک کرتی جائیں، اس کے لیے مستقل مزاجی شرط ہے۔
خود کار بچت کا آغاز کریں، گلک کا استعمال بچت کرنے کا آزمودہ نسخہ ہے، گلک کو ہر ماہ کچھ رقم سے بھرتی جائیں۔اس طرح ماہانہ بجٹ اور اخراجات پہ بوجھ بھی نہیں پڑے گا اور معقول رقم جمع ہوتی جائے گی۔ گلک میں رقم ڈال کر بھولنا ہی فائدہ مند ہے،حتی الامکان کوشش کیجئے کہ گلگ سے کٹوتی نہ کی جائے۔ علالت، غیر متوقع مہمان داری، ایمرجنسی کی صورت میں یک مشت رقم نکالی جاسکتی ہے ،اس طرح وقتی پریشانی سے بچا جاسکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ یعنی ضرورت اور خواہش کے مابین فرق رکھنا بھی فی زمانہ آرٹ اور گھر گھرستی کی چابی ہے۔ خریداری سے قبل فہرست ترتیب دیں اور اسی ذہن میں رکھتے ہوئے بازار کا رخ کریں۔ اکثر اوقات خواتین کم قیمت کے دلکش جھانسوں میں آکر بلا ضرورت خریداری کرتی جاتی ہیں، بعدزاں سر پکڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ بجٹ آؤٹ ہو جائے تو سمجھیں دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے کچھ ماہ درکار ہوں گے۔
ایسا ہرگز نہیں کہ بچت کے نام پہ چھوٹی چھوٹی خواہشات پہ قدغن لگا دی جائیں اور احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں۔ بھيڑچال کے بجائے سلیقہ شعاری و سمجھداری سے بازار میں قدم رکھنا چاہیے، میانہ روش ہی بہترین ہے۔ زائد کی خواہشات سے قارون کا خزانہ بھی کم پڑ جاتا ہے۔
آئے روز بلوں کے مد میں کمائی کا خاطر خواہ حصہ صرف ہونا عام ہے۔ اپنے طرز زندگی کو بچت کے معمول پہ لانا مشکل نہیں، تھوڑی سی محنت سے طرز زندگی بدلا جا سکتا ہے۔ ابتداء میں دشواری ہوگی، مگر عادت ہوجانے پہ طويل مدتی فائدہ مند ہوگا۔ توانائی کم کھینچنے والے آلات کا استعمال، اے سی کا استعمال، بجلی کی کھپت کو محدود کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ آج کل بند گھروں کا رجحان عام ہے۔
پہلے کھلے صحن، کھڑکیوں اور روشن ہوا دار کمروں کا رواج تھا، جس سے قدرتی توانائی بروئے کار لائی جاتی اور بجلی کی کھپت بھی کم از کم ہوتی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ طرز زندگی پرکھیں، بيک وقت تمام خرچوں پہ ایسے بھی قد غن نہ لگائیں کہ زندگی بوجھل لگنے لگے اور خوبصورتی ماند پڑ جائے۔ سمجھداری اور حاضر دماغی سے اخراجات اور آمدنی کا توازن برقرار رکھا جا سکتا ہے، يہ مہنگائی کے دور میں بچت کو حقیقت کی شکل دينے کی کوشش ہے۔