کراچی (ٹی وی رپورٹ) سابق وزیراعظم شاہد خاقان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ نون کی ممبر شپ بہت عزیز تھی لیکن آج راستے جدا ہیں۔ ایک سال سے زیادہ ہوگیا ہے میں عہدے سے استعفیٰ دے چکا ہوں۔ مجھے اُن سے کوئی اختلاف نہیں لیکن اس سیاست سے اتفاق بھی نہیں جو انہوں نے 2022 کے بعد کی ہے یعنی کہ ہر قیمت پر اقتدار کی سیاست۔مجھ پر الزام لگانے کا حق صرف نوازشریف کو ہے وہ جو کہیں گے وہ مجھے قبول ہوگا چونکہ وہ حقائق جانتے ہیں،بیوروکریسی کچھ ڈیلیور نہیں کرسکتی اس کو مکمل طو رپر بدلنے کی ضرورت ہے نیب جیسے اداروں کو ختم کرنا ہے۔ عدلیہ میں جج کی سلیکشن کو درست کرنا ہے۔ فوج کے نظام کو درست کرنا ہے۔ الیکشن کا نظام بہتر کرنا ہے۔ ہماری سوچ اور ترجیح ہوگی تو سب کام ہوجائیں گے۔ سابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی جیو کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کر رہے تھے انہوں نے مزید کہا کہ مشرف دور میں اگر نوازشریف نے کوئی ڈیل کری اور باہر چلے گئے یا ڈیل کرکے واپس آگئے تو میں وہ نہیں جانتا۔ میرا تعلق سیاست سے ہے جس کو لے کر ہم عوام کے پاس جاتے ہیں اور 2002 میں ہم نے مشرف کے خلاف الیکشن لڑا۔ 88 میں آزاد تھا نوے میں پتہ نہیں ڈیل تھی یا نہیں تھی ہم نے آئی جے آئی کے ٹکٹ پر لڑا اور جیت گئے 94 میں الیکشن لڑا ہار گئے میں نے کبھی کسی اسٹبلشمنٹ کے پاس نہیں گیا نہ ہی کوئی سودا کیا حالانکہ لوگ ملنے آتے تھے میں معذرت کرلیتا تھا لیکن اس دفعہ ہم پیغام لے کر گئے کہ ہم اسٹبلشمنٹ کی مدد سے الیکشن لے کر جارہے ہیں یہ بات اس دفعہ واضح تھی کہ نون لیگ اسٹبلشمنٹ کی جماعت ہے اور یہ الیکشن لڑ کر جیتے گی اور اقتدار میں آئے گی یہ سب جانتے تھے۔جنرل باجوہ کی کہانی لمبی ہے انہوں نے ہمیشہ مجھے عزت دی ہے اور میں نے بھی انہیں عزت دی ہے ۔اٹھارہ میں یقیناً جنرل باجوہ کا کردار موجود ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ جوڈیشری کیا اس ملک میں آزاد ہے چھ ججز کے خط آپ کے سامنے ہیں بھٹو کی پھانسی دی گئی ہر جج مرنے سے پہلے کہہ کر گیا کہ میں نے وہ فیصلہ دبائو میں دیا تھا۔ عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لیا جس سے متعلق باجوہ اور عمران خان نے اعتراف کیا کہ گنتی پوری نہیں تھی جنرل باجوہ نے پورے کیے۔ بقول عمران خان کے عدم اعتماد میں جنرل باجوہ کی یہ غلطی ہے کہ انہوں نے میری مدد نہیں کی عدم اعتماد سے بچنے میں پھر پنجاب میں کیا ہوا پرویز الٰہی خود کہتے ہیں کہ مجھے جنرل باجوہ نے کہا کہ تم اُدھر ہوجائو۔نوازشریف کے خلاف جو فیصلہ دیا گیا وہ جوڈیشری نے دبائو میں آکر دیا جیسا کہ ہماری تاریخ ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی چودہ کے دھرنوں کا اعتراف کرچکے ہیں۔ کیا راحیل شریف بھی شامل تھے اس سوال کے جواب میں شاہد خاقان نے کہا کہ میں نہیں جانتا لیکن براہ راست تعلق تھا اس وقت انٹیلی جنس سروسز کا دھرنے سے آپ یہ پتہ کر لیجئے کہ کھانے کا بل جاتا تھا تو کون ادا کرتا تھا۔اسٹبلشمنٹ اس ملک کی ہے وہ بھی ملک کی بہتری چاہتے ہیں لیکن بات وہاں خراب ہوتی جب آپ نظام سے باہر چلے جاتے ہیں ۔ نوازشریف کو اپنی تاریخ لکھ دینی چاہیے چونکہ ان کے پاس بہت سے حقائق ہیں۔پارٹی میں جن کا تعلق جنرل باجوہ سے تھا وہ لوگ چاہتے تھے باجوہ کی توسیع کر دی جائے لیکن میری رائے واضح تھی جو میں نے نوازشریف کو لکھ کر بھیجی تھی کہ جنرل باجوہ کو قانون کے مطابق توسیع دے دی گئی ہے جس طرح سابقہ چیف کو دی گئی اور فوج نے اس کو قبول بھی کر لیا ہے اور اب آپ اس میں مداخلت نہ کریں یہ توسیع چلنے دیں۔کیوں کہ یہ ساری بات سپریم کورٹ نے چھیڑی تھی اور وہ بھی توسیع سے تین ہفتے پہلے وہ بھی سب میلافائڈ تھا لیکن میں نے کہا تھا کہ قانون میں ترمیم مت کریں یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔میں امید کرتا ہوں فوج اس معاملے میں اپنے طور پر ڈبیٹ کر کے اس معاملے کو طے کرے گی۔ مسلم لیگ نون کے حلقوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ نوازشریف آپ سے اس لیے ناراض ہیں کہ آپ جنرل باجوہ کی دوسری توسیع کا پیغام لے کر گئے تھے ؟ اس سوال کے جواب میں شاہد خاقان نے کہا کہ مجھ پر جو مرضی الزام لگائے مسئلہ نہیں ہے لیکن مجھ پر الزام لگانے کا حق صرف نوازشریف کو ہے وہ جو کہیں گے وہ مجھے قبول ہوگی چونکہ وہ حقائق جانتے ہیں۔میں نے نوازشریف کو نہیں چھوڑا ہے اس سیاست کو چھوڑا ہے جس کے وہ آج حامل ہیں۔