ایک وقت تھا جب بجلی کے کاموں کے قریب خواتین کو آنے بھی نہیں دیا جاتا تھا کہ بجلی کے کام خواتین کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن جب وقت نے کروٹ بدلی تو آج خواتین ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاکر کام یابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔
چاہے وہ چاند پر جانا ہو ،جہاز اُڑانا ہویا کہیں پر سولر سسٹم لگانا ہو ۔اسی ضمن میں الیکٹریکل انجینئر نگ کے شعبے میں ڈگری حاصل کرنے والی خواتین نے ایک یتیم خانے کی چھت پر 24 کلو واٹ کا سولر سسٹم نصب کرکے معر کہ سر کرلیا اور پاکستان کی تاریخ میں سولر روف انسٹالیشن کے لیے معاوضہ لینے والی پہلی خواتین بن گئیں۔
این ای ڈی یونیورسٹی سے 28 خواتین انجینئرز کی تربیت ایک منصوبہ تھا جو داؤد گلوبل فاؤنڈیشن کے پروجیکٹ لیڈیز فنڈکے تحت خواتین کو بااختیار بنانے اور انڈسٹری میں شامل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
این ای ڈی یونیورسٹی میں سولر روف انسٹالیشن کی تربیت ڈاکٹر محسن امان نے دی اور لیڈیز فنڈ انرجی نے یتیم خانہ کے لیے ایک اعلیٰ معیار کا سولر روف ڈیزائن کیا۔ داؤد گلوبل فاؤنڈیشن اگلے گروپ کے لیے اندرونی سندھ کی لڑکیوں کے ساتھ اس تربیت کو جاری رکھنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
پانچ الیکٹریکل انجینئرز، عریبہ رشید، ایمان بطول، فرحان انجم، مسکان اقبال اور رحیمین حیدر علی نے سولر سسٹم نصب کرکے کا م یابی کا سہرا اپنے نام کرلیا۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے ہم نے دو انجینئرز عریبہ رشید اور مسکان سے بات چیت کی، جس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔
……٭٭……٭٭……
س: سولر پینلز انسٹالیشن کو عام طور پر مردوں کا شعبہ تصور کیا جاتا ہے، آپ اس کی طرف کیسے اور کیوں آئیں؟
ج: بجلی سے متعلق سارے کاموں کو مردوں کا کام ہی سمجھا جاتا ہے لیکن الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی ہم نے سوچ لیا تھا کہ یہ ڈگری لے کر کچھ منفرد کام کرنا ہے۔ ہمارے کچھ کورسز ایسے تھے جن میں STEM ( Science ,technology ,engineering ,mathematics ) کے حوالے سے پڑھایا گیا تھا ۔پڑھنے کے بعد اس میں مزید دل چسپی بڑھتی گئی ۔ویسے بھی الیکٹریکل انجینئرنگ بہت کم لڑکیاں کرتی ہیں۔
جب پڑھائی مکمل کرلی تو کچھ الگ کرنے کی خواہش مزید بڑھتی گئی اور اتفاق سےاسی دوران لیڈیز فنڈ کی جانب سے اس ٹریننگ کا علم ہوا تو ہم نے اس ٹریننگ کا فارم فل کردیا تو اس طرح ہمیں یہ ٹریننگ کرنے کا موقع ملا۔ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد سب سے پہلے ہم نے ایک یتیم خانے میں 24 کلو واٹ کا سولر سسٹم نصب کرنےکا تجربہ کیا اور یہ کام کرنے میں ہمیں بہت مزہ آیا۔
ہم سب میں کچھ منفرد کرنے کا جوش وجذبہ تھا، اسی لیے ہم نے سولر پینل کی انسٹالیشن کے کام کو خوب انجوائے کیا ۔یہ ہمارے لیے تبدیلی لانے کا بہت بڑا موقع تھا اور ہم نے اس سے بھر پور فائدہ بھی اُٹھا یا اور وہ کردکھایا ،جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور یہ ثابت کردیا کہ اس دور میں لڑکیاں ہر کام کرسکتی ہیں۔ اس دوران ہمیں یہ بھی سننے کو ملا کہ یہ لڑکیوں کے بس کا کام نہیں ہے ،نہ ہی اس کو کرنا اتنا آسان ہے۔
لیڈیز فنڈ کی سربراہ ،تاراعذرا داؤد کا اس پروگرام کے حوالے سے کہنا تھا کہ، ’’یہ پروگرام شروع کرنے کا مقصد یہی تھا کہ، لڑکیاں بھی بجلی کا کام کرسکتی ہیں۔ ٹیکنیکل پروسیس اور تاروں کی فیٹنگ کاکام ذہانت سے کیا جاتا ہے، اس کام کے لیے لڑکا ہونا ضرور نہیں ہے، کہیں نہیں لکھا کہ بجلی کاکام صرف لڑکے ہی کرسکتے ہیں۔‘‘
جب لڑکیوں میں آگے آنے کا جذبہ ہے، وہ محنت و لگن سے کام کرسکتی ہیں تو ہمیں ان کو لازمی پلیٹ فارم فراہم کرنا چاہیے۔ سولر پینلز کی انسٹالیشن کرنے کے بعد ہم یہ ثابت کردیا کہ لڑکیاں ہر کام بہادری، ہمت اور لگن سے کرسکتی ہیں۔
س: خواتین کو اِس شعبے میں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور وہ ان مسائل پر کیسے قابو پا سکتی ہیں؟
ج: یوں تو کسی خاص قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ،مگرمشکلات سے زیادہ لوگوں کی باتیں حوصلہ شکنی کرتی ہیں، کیوں کہ مشکلات کا سامنا تو ہم ہمت سے کرلیتے ہیں لیکن لوگوں کی باتیں ہماری ہمت توڑ دیتی ہیں۔
اس سے بچنے کے لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو ہمت دلائیں، اپنی حوصلہ افزائی کریں اور دوسرے بات یہ کہ اپنے کام کو انجوائے کریں۔اگر فیملی کی سپورٹ اور اچھا پلیٹ فارم ہوتو مسائل پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔
اس سب کے ساتھ پروٹیکشن بھی ضروری ہے تو حفاظتی اصولوں کو فالو کرتے ہوئے مسائل سے بچا جاسکتا ہے ۔کسی بھی کام کے لیے جب آپ سیڑھی کے پہلے اسٹیپ پر ہمت سے قدم رکھتے ہیں تو باقی اسٹیپس چڑھنے میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جب ہمارے پاس سیفٹی، موٹیویشن اور رہنمائی ہے تو پھر ڈرنا کیسا۔ ایک بات کی سب سے زیادہ خوشی ہے کہ ہم پہلی لڑکیا ں ہیں جنہوں نے سولر پینل کی انسٹالیشن کا کام کیا اور ہم نے اس کام کو بہت انجوائے کیا۔
س: آپ نے سولر پینلز انسٹالیشن کی تعلیم و تربیت کہاں سے حاصل کی اور دیگر خواتین کن اداروں سے تربیت لے سکتی ہیں؟
ج: انسٹالیشن کی تربیت حاصل کرنے والی تمام لڑکیوں کا تعلق انجینئرنگ کے شعبے سے ہے، ان سب کا تعلق مختلف جامعات سے ہے۔ پہلے بیچ میں 28 لڑکیوں نے ٹریننگ حاصل کی ہے اور دوسرے بیچ کے لیے 89 لڑکیاں ویٹنگ لسٹ میں ہیں۔
تربیت حاصل کرنے کے لیے لیڈیز فنڈ کا پلیٹ فارم موجود ہے، انجینئرنگ کی ڈگری لینے والی لڑکیاں اس پروگرام میں ان رول ہوکر سولر سسٹم نصب کرنے کی تربیت حاصل کرسکتی ہیں یہ ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے پہلے ایک فارم فل کرنا پڑتا ہے، پھر جو طالبہ منتخب ہوتی ہیں، ان کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے ،پھر انٹرویو ہوتا ہے، انٹرویو میں پاس ہونے کے بعد ٹریننگ کا حصہ بنتی ہیں اور اب ہم اُن لڑکیوں کو وینڈرز سے ٹریننگ دلانے کی پلاننگ کررہے ہیں جن کا تعلق انجینئرنگ کے شعبے سے نہیں ہے۔
س: آپ لوگوں کو اس ٹریننگ کے دوران کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ؟
ج: نہ ٹریننگ میں اور نہ ہی انسٹالیشن میں کسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ انسٹال کرنے سے پہلے ہمارا ایک ٹیسٹ بھی ہوا تھا ،جس کے بعد غلطی کی کوئی گنجائش بنتی نہیں تھی۔ علاوہ ازیں ’’کے الیکٹرک ‘‘ نے ہمیں سیفٹی کی ٹریننگ دی تھی۔
احتیاطی تدابیر، حادثات اور انجریز سے بچنے کے طریقے بتائے گئے تھے۔ اس تجربے کوکام یاب بنانے کے لیے ہم نے دن رات محنت کی اور بغیر کسی رکاوٹ کے تجربہ کام یا ب ہوا اور ہم سب لڑکیاں تھے تو سب نے ایک دوسرے کو سپورٹ کیا اور خیال بھی رکھا۔ اس ٹریننگ کے تما م تر اخراجات لیڈیز فند نے برداشت کیے۔
س: کیا یہ شعبہ صرف تعلیم یافتہ خواتین ہی کے لیے ہے یا کم پڑھی لکھی بھی اِس شعبے میں آ سکتی ہیں؟
ج: لیبر کے طور پر تو کم پڑھی لکھی لڑکیاں کام کرسکتی ہیں۔ ہم ان کو ٹریننگ دے کر تاروں کی فٹنگ اور دیگر چیز یں سکھا سکتے ہیں لیکن یہ تھوڑا خطرناک کام بھی ہے اگر غلطی سے بھی کوئی تار غلط جگہ لگا دیا جائے تو حادثہ رونما ہوسکتا ہے، اسی لیے ٹیکنیکل معاملات کو سمجھنے کے لیے انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ ہونا ضروری ہے ۔
س: حکومت یا ادارے اِس ضمن میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ کیا ہمارے ہاں قائم ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس کی کارکردگی سے آپ مطمئن ہیں؟
ج: تربیت یافتہ لڑکیوں کو سولر پینل انسٹالیشن کے لیے ادارے جاب پر رکھ کر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور یہ پوری دنیا میں پاکستان کا ایک مثبت امیج ہوگا کہ پاکستانی لڑکیاں ٹیکنیکل کام بہ خوبی انجام دے رہی ہیں۔ این ای ڈی یونیورسٹی میں قائم لیب میں اس حوالے سے بہترین تربیت دی جاتی ہے۔
سولر پینل لگانے سے پہلے ایک ٹیسٹنگ کی جاتی ہے، ہمیں اس کے بارے میں بھی سکھا یا گیا تھا۔ کس جگہ کون سے آلات استعمال ہوتے ہیں اس حوالے سے بتایا گیا۔ غرض یہ کہ ہر اسٹیپ کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا۔
س: آپ لوگوں کو سولرپینل نصب کرنے کا کام مشکل نہیں لگا ؟
ج: ہماری ٹریننگ بہت اچھی ہوئی تھی اور سب کا تعلق الیکٹریکل انجینئرنگ سے ہے ہمیں ٹیکنیکل معاملات کی سمجھ بوجھ بہت اچھے سے تھی تو اسی لیے ہمیں مشکل پیش نہیں آئی اور نہ ہی ڈر لگا بلکہ پورے اعتماد اور بہادری سے یہ کام سر انجام دیا۔
ساری سیفٹی ،پروٹیکشن سب چیزوں کے بارے میں ٹریننگ کے دوران بتا یا گیا تھا ۔ ہماراسولر انسٹالیشنکا کام دیکھ کر لوگ یہ بات نہیں کہیں گے کہ بجلی کا کام کرنا لڑکیوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
س: جب پہلی مرتبہ سولر پینل انسٹول کیا تو کتنا وقت لگا ؟
ج: یتیم خانےپر 24 کلو واٹ کا سولر سسٹم نصب کرنے کا کام چار دن میں مکمل کرلیا تھا، کیوں کہ اس میں ہم لوگوں نے دن رات کام کیا تھا۔ ویسے عام طور پر بڑے پروجیکٹ کو مکمل کرنے میں ایک ہفتہ لگتا ہے۔ ایک بات یہاں بتانا چاہوں گی اب ہمیں کمرشل لیول پر آڈرز مل رہے ہیں اور بہت جلد ہم دیگر جگہوں پر بھی یہ کام سر انجام دیں گے۔