• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزاد کشمیر میں عوام کے جذبات و احساسات کا لاوا جو برسہا برس سے دہک رہا تھا اب ایک بہت بڑے دھماکے کے ساتھ پھٹ پڑاہے۔پہلے ایک سرکاری افسر پر تشدد کرنے کے بعد اس کی شلوار نشان عبرت کے طور پر لٹکا دی گئی اور پھر ایک سب انسپکٹر کو نہایت بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔اب مشتعل مظاہرین مختلف قافلوں کی شکل میں مظفر آباد کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں مگرارباب اختیار کواندازہ نہیں کہ صورتحال کس قدر سنگین ہوچکی ہے۔شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ یہ احتجاج کسی وقتی اشتعال کا نتیجہ ہے مگر سچ یہ ہے کہ ایک سال سے آزاد کشمیر کے لوگ سراپا احتجاج تھے مگر کسی نے ان کی بات نہ سنی تو معاملات اس نہج تک پہنچے ہیں۔گزشتہ برس مئی کے مہینے میں ہی راولاکوٹ میں آٹے کے بحران پر لوگ سڑکوں پر نکلے ،منتخب سیاسی نمائندوں اور قیادت سے مایوس ہوکر پونچھ عوامی ایکشن کمیٹی بنائی گئی ۔جب شنوائی نہیں ہوئی تو احتجاج ہی نہیں شکایات اور مطالبات کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا چلا گیا۔دیگر اضلاع کے لوگ اس مہم جوئی کا حصہ بنے تو جموں کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی بن گئی ۔بجلی کے بل جلا دیئے گئے اور ایجنڈے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اب ایک سال گزر جانے پر جب احتجاج شروع ہوا تو اسے ڈنڈے کے زور پر روکنے کی کوشش کی گئی۔بنیادی طور پر اس تحریک کے چار مطالبات ہیں ،آٹے پر سبسڈی دی جائے،بجلی پیداواری لاگت پر فراہم کی جائے،پراپرٹی ٹیکس ختم کیا جائے ،حکمران طبقے کی مراعات اور پروٹوکول کو ختم کیا جائے۔

سب سے بڑی شکایت بجلی کے حوالے سے ہے ۔رفتہ رفتہ یہ احساس اور تاثر پختہ تر ہوچلا ہے کہ آزاد کشمیر میں بجلی کی پیداوارکیلئے ڈیم بنائے گئے ہیں،برقی توانائی کے منصوبے لگائے گئے ہیں تو برقی توانائی پر سب سے پہلا حق کشمیری عوام کا ہے ،انہیں نہ صرف بلاتعطل بجلی فراہم کی جائے بلکہ پیداواری نرخوں پر دستیاب ہو۔کہتے ہیں تاثر حقیقت سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہے ۔یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔جب یہ منصوبے لگائے جارہےتھے تو اسکے اخراجات کشمیری عوام نے نہیں اُٹھائے ،پاکستان کے غریب لوگوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر ٹیکس اداکئے۔2018ء تک صارفین سے نیلم جہلم سرچارج بجلی کے بلوں میں وصول کیا جاتا رہا تو کیا اب اس منصوبے سے پیداہونے والی بجلی پاکستانی عوام کو سستے داموں فراہم کی جارہی ہے؟اگر بجلی کی پیداوار پر آزاد کشمیر حکومت خالص منافع اور رائلٹی لے رہی ہے تو پھر عوام کو پیداواری لاگت پر بجلی کیسے دی جاسکتی ہے؟چلیں اگر بالفرض محال آزاد کشمیر کے صارفین کو ٹیکس سے استثنیٰ بھی دے دیا جائے تو بجلی گھر گھر پہنچانے کیلئےٹرانسمیشن لائنیں بچھانے پر جو اخراجات آئیں گے ،لائن لاسز اور بجلی چوری کی مد میں جو نقصان ہوگا اور بجلی کی تقسیم کار کی ذمہ دار کمپنیوں کو اپنے دفاتر چلانے کیلئے جو وسائل درکار ہوں گے ،وہ کہاں سے پورے ہوں گے؟ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ چونکہ بجلی آزاد کشمیر میں پیدا ہوتی ہے لہٰذا یہ مقامی باشندوں کو پیداواری لاگت پر دستیاب ہونی چاہئے اور دوسری طرف آپ پنجاب میں پیدا ہونے والے اناج پرسبسڈی کے خواہاں ہیں حالانکہ آپ کو تو وفاقی حکومت آٹا سستے نرخوں فراہم کرنے کیلئے باقاعدہ فنڈز مختص کرتی ہے مگر جہاں کسان یہ فصل اُگاتے ہیں ،وہاں کسی قسم کی سبسڈی نہیں دی جاتی۔

پراپرٹی ٹیکس کے حوالے سے گلہ بھی غلط فہمیوں پر مبنی ہے ۔چند برس قبل صحافی دوستوں کے ساتھ مظفر آباد جانا ہوا تو میں نے اس وقت کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس سے پوچھا کہ آپ کے ہاں سالانہ بجٹ جو لگ بھگ232ارب روپے کا ہوتا ہے ،اس میں آپ کا اپنا حصہ کتنا ہے یعنی آزاد کشمیر میںٹیکس وصولی کی شرح کیا ہے ؟کتنے فیصد اخراجات مقامی سطح پر جمع ہونے والے ریونیو سے پورے ہوتے ہیں ؟انہوں نے کہا ،پانچ فیصد سے بھی کم ۔اور یہ حقیقت ہے ۔بجٹ کیلئے تمام تر فنڈز حکومت پاکستان کی طرف سے فراہم کئے جاتے ہیں۔کشمیر کو ویسے تو جنت نظیر کہا جاتا ہے مگر آزاد کشمیر سچ مچ جنت ہے ،اسے ٹیکس فری زون کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔جب وفاقی حکومت نے پی ٹی اے کے ذریعے موبائل فون پر بھاری ڈیوٹی عائد کردی تو لوگ آزاد کشمیر سے سم خرید کر فون چلانے لگے کیونکہ وہاں اس ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔سچ یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے لوگوں کو حکومت پاکستان نے ہمیشہ خصوصی اہمیت دی ۔آج بھی آزاد کشمیر سے لوگ پاکستان بھر میں کاروبار کرتے ہیں ،زمینیں اور جائیداد خریدتے ہیں مگر کوئی پاکستانی شہری آزاد کشمیر میں ایک مرلہ زمین نہیں خرید سکتا ۔

بلاشبہ کشمیریوں کے ساتھ رشتہ حساب کتاب سے بالاتر ہے لیکن یہ تفصیلات سامنے رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ محرومیوں اور شکایات کی ایک بڑی وجہ غلط فہمیاں اور مغالطے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمسایہ ممالک بھی صورتحال سے فائدہ اُٹھا کر جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں ،بالخصوص بھارت میں انتخابات کی فضا کی وجہ سے اشتعال انگیزی کو فروغ دیا جارہا ہے۔لیکن دشمنوں کو موقع تب ملتا ہے جب ہمارے درمیان فاصلے بڑھتے ہیں۔جو لوگ ان مظاہرین کو بھارتی ایجنٹ قرار دیکر ریاستی طاقت استعمال کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ،وہ نجانے کس دنیا میں رہ رہے ہیں۔آپ کو یاد ہوگا ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حکومت مخالف احتجاج دراصل دھاندلی کے خلا ف شروع ہواتھا لیکن پھر یہ احتجاج نظام مصطفی کی تحریک میں بدل گیا۔عوامی احتجاج کو ریاستی طاقت سے کچلنے کی کوشش کی جائے یا لوگوں کی شکایات کا فوری ازالہ نہ کیا جائے تو ایسی تحریکیں ہائی جیک ہوجاتی ہیں اور کشمیر جیسے حساس ترین علاقے میں تو اس بات کا امکان مزید بڑھ جاتا ہے۔لہٰذا سیاسی قیادت فوری طور پر سر جوڑ کر بیٹھے ،آزاد کشمیر کے تمام فریقین کے ساتھ بات چیت کرکے اس معاملے کو فوری طور پر حل کیا جائے۔

تازہ ترین