خیال تازہ … شہزاد علی آزاد کشمیر میں جو واقعات چند روز میں رونما ہوگئے برطانیہ کے کشمیری بھی ان واقعات سے متعلق لمحے لمحے کی صورتحال سے اپنے آپ کو باخبر رکھ رہے تھے اس ساری صورتحال سے آزاد کشمیر حکومت کی حیثیت اور اس کے اقتدار اعلی پر کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ کیا یہ واقعی کشمیریوں کی کوئی نمائندہ اتھارٹی ہے ؟ اور آزاد کشمیر کے عوام کیا بااختیار ہیں کہ نہیں؟ حالیہ افسوس ناک واقعات کے تناظر میں عالمی سطح پر آزاد کشمیر حکومت کا غیر مجاز کردار مزید ابھر کر سامنے آیا ہے جس باعث مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور اس کے جغرافیہ سے واقفان حال کئی کشمیری شخصیات کا کہنا ہے کہ کاش ماضی میں پاکستان کی حکومتوں کو خورشید ملت کے ایچ خورشید کے تسلیم کرو کشمیر کی افادیت کا ادراک ہو جاتا تو آج ہماری یوں بے وقعتی نہ ہوتی _ وولورہمٹن سے بیرسٹر آصف خان ہوں لوٹن کے کشمیری اکیڈمک پروفیسر راجہ ظفر خان، جے کے ایل ایف کے بزرگ رہنما خواجہ محمد لطیف یا لندن کے حقوق انسانی سے متعلق ڈاکٹر سید نذیر گیلانی سب اپنے اپنے انداز میں ان واقعات سے جڑے تھے یا ادھر کوٹلی میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سردار عبدل رحمان خان ہوں وہ بھی آزاد کشمیر کے حوالے ہونے والی ڈیولپمنٹ سے برطانوی کشمیریوں کو سوشل میڈیا کے زریعے باخبر رکھے ہوئے تھے _ پاکستان پیپلزپارٹی کے پیر سید اعجاز محی الدین قادری سے لے کر عام کشمیری تک سبھی متفکر تھے کہ آخر یہ آزاد کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔ اس متعلق مختلف اجلاسوں میں آزاد کشمیر حکومت کے آئینی کردار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں _ بیرسٹر آصف خان اپنی ناساز طبیعت کے باوجود بریڈ فورڈ سےاس متعلق منعقدہ احتجاج میں شرکت کے لیے پہنچے تھے جبکہ انہوں نے برطانیہ کے دونوں ایوانوں کے متعدد پارلیمنٹرین سے بھی متعلق مسلسل رابطے میں ہیں اور اصل واقعات سے آگاہ رکھے ہوئے ہیں _ لوٹن کے مقامی سیاسی عمل میں متحرک شخصیت کونسلر راجہ محمد اسلم خان نے بھی اس متعلق ایک احتجاجی پروگرام میں شرکت کرکے فوری اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کیا اس متعلق پروفیسر راجہ ظفر خان کا کہنا ہے کہ ایک بات تو واضح ہے کہ آزاد کشمیر کی عوام مہنگائی سے تنگ ہیں اور اسی لئے جائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی معرضِ وجود میں آئی۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی مانگیں بھی اس حوالے سے واضح ہیں۔ آزاد کشمیر کے وسائل اور ان پر اختیارات کا ایشو بھی اہم ہے اس کے علاوہ آزاد کشمیر حکومت کو قابل احتساب بنانے کا مسلہ ہے تیسری بات یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر حکومت بے اختیار ہے۔ عوام کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر کا سیاسی طبقہ خود غرض اور مفاد پرست ہے اور کو ہالہ پار سے حکومتی نظام میں مداخلت کو یہ سیاسی خود غرضی نہ صرف سوٹ کرتی ہے بلکہ اس روش کی اسلام آباد بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور پاکستانی سیاسی پارٹیوں کو آزاد کشمیر میں اسی تناظر میں منظم بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آزاد کشمیر آیک متنازع خطہ ہے اور پاکستان اور آزاد کشمیر نے اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کی طرف سے عائد کردہ ذ مہ داریاں گورننس میں ملحوظ خاطر نہیں رکھیں جبکہ اس خطے کو لوٹ کھسوٹ کا مرکز بنا دیا جس کے نتیجے میں آزاد کشمیر کے عوام کی روز مرہ کی مشکلات میں اصافہ ہوتا رہا ہے یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ ضلع میر پور کی زرخیز ترین زمین ایک سو فٹ گہری منگلہ جھیل میں ڈوبی ہوئی ہے جس کے معاشی اور معاشرتی اثرات نہ صرف آج محسوس کئے جاتے ہیں بلکہ کئی نسلوں تک محسوس ہوں گے۔ آزاد کشمیر کی بے اختیار حکومت اپنے لوگوں کے مفادات کا بالکل تحفظ نہیں کر سکتی جو ٹیکسیز کشمیریوں پر لگائے جاتے ہیں ان کا جواز نہیں ہے جبکہ ان ٹیکسوں سے آمدنی کہاں خرچ ہوتی ہے آزاد کشمیر کا انفرااسٹرکیچر اور دیگر سہولیات اور سروسز میں کسی بھی جگہ آزاد کشمیر میں ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں نہیں آتا ایسی صورت میں عوام کو اپنے نااہلی اور خود غرض حکمرانوں کا محاسبہ کرنا اب نا گزیر ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر سید نذیر گیلانی کا ایک مکتوب بھی لائق توجہ ہے جسے ایڈیٹ کر کے شامل اشاعت کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم جموں وکشمیر مستعفی زندہ ضمیر لوگ آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کی خدمت میں آزاد کشمیر میں جاری بنیادی سہولیات کے حصول کی جنگ، سے متعلق مظفرآباد سے موصول اطلاعات اچھی نہیں۔ اللہ خیر کرے۔ پاکستان رینجرز، ایف سی اور پی سی کے آزاد کشمیر کے دارالخلافہ مظفرآباد میں داخلے کی خبر کسی بھی طرح قابل ستائش نہیں۔ ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہم نے ہمیشہ چراغ بیگ خان بلائے ہیں۔ پڑھائی، لکھائی اور اخبار پڑہنے کی ہم میں نہ صلاحیت ہے، نہ فرصت اور نہ ہی عادت۔ المیہ یہ ہے کہ ہم کشمیر کی تاریخ اور کشمیریات سے بے خبر رہے ہیں۔ ورنہ کشمیر کی تاریخ میں زندہ ضمیری کی اعلٰی مثالیں موجود ہیں۔ مثالیں لمحہ آزمائش میں قائم کی جاتی ہیں۔جموں وکشمیر میں زندہ ضمیری کی اعلٰی مثالیں موجود ہیں۔ کشمیر میں مہاراجہ کے وزیراعظم Sir Albion Rajkumar Banerjee نے کشمیری مسلمانوں کی خستہ حالی دیکھ کر احتجاج کے طور 1929 میں استعفیٰ دیدیا وزیراعظم نے مہاراجہ کشمیر کی مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے لکھا :جموں وکشمیر سٹیٹ بہت ساری disadvantages کے بوجھ تلے دبی ہے۔ یہاں کی مسلمان اکثریت کلی طور ناخواندہ absolutely illiterate ہے اور یہ غربت کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ دیہات میں ان کی اقتصادی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔ ان پر dumb driven cattle بے زبان مویشیوں کی طرح حکومت کی جارہی ہے۔ حکومت اورعوام کے درمیان کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی no suitable opportunity for redressing grievances اپنا دکھ درد بیان کرنے کی کوئی سہولت موجود ہے۔ یہاں کی ایڈمنسٹریشن کو عوامی ضرورتوں اور شکایات کے لئے ذرا برابر ہمدردی نہیں ہے۔ The administration has at present little or no sympathy with the peopleʼs wants and grievances. اس نوٹ کے ساتھ زندہ ضمیر وزیراعظم جموں وکشمیر نے 1927 میں وزیراعظم بننے کے بعد 1929 میں استعفےا دے دیا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر انوارلحق کے والد چوہدری صحبت علی ایک زندہ ضمیر شخصیت تھے۔ لیکن انوارلحق زندہ ضمیری کی مثال رقم کرنے میں بخیل ثابت ہوئے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت بھی اس جرم سے بری الذمہ نہیں۔کیا پولیس اور دوسرے دستے دشمن کے علاقے میں کاروائی کے لئے بھیجی گئی تھیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اس جرم کے شدید اثرات مرتب ہوں گے۔