آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: میں نے اپنے ایک غریب عزیز کو ایک گاڑی دی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ ان کے ساتھ تعاون ہوجائے اور وہ اسے اجرت پر چلائیں اور اپنا گزر بسر کریں اور اگر کچھ بچت کرلیں تو اسے بیچ کر اور اچھی اور قیمتی گاڑی لے لیں۔ وہ اچھے آدمی تھے، میرے احسان کے بدلے انہوں نے ایک اسکوٹر میرے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے دی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نے وہ گاڑی فروخت کردی ،جس کا مجھے بہت دکھ ہوا اور میں نے ان سے کہا کہ وہ اپنے والد کی اسکوٹر لیں اور مجھے میری گاڑی لوٹا دیں، کیا انہیں مجھے میری گاڑی نہیں لوٹانی چاہیے؟
جواب: ایک سے زائد وجوہات کی بناء پر آپ کا مطالبہ درست نہیں۔ ایک تو وہ غریب تھے اور غریب کو ہدیہ اور تحفہ کے نام پر بھی کچھ دیا جائے تو وہ دراصل صدقہ ہوتا ہے۔ صدقہ میں غریب شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے، اس لیے صدقہ پہلے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ہاتھ میں پڑتا ہے اور پھر انسان اللہ پاک کا نائب بن کر اس پر قبضہ کرتا ہے ،اس لیے تحفہ تو دے کر بعض صورتوں میں واپس لیا جاسکتا ہے، مگر صدقہ واپس نہیں لیاجاسکتا۔
دوسرے یہ کہ آپ اپنے احسان کا بدل بھی وصول کرچکے ہیں، اگر انہوں نے آپ کے تحفے کے عوض وہ اسکوٹر آپ کو دی تھی تو آپ کا اپنا تحفہ واپس لینے کا حق اس وقت ہی ختم ہوگیا تھا۔ تیسرے یہ کہ تحفہ اگر لینے والے کے ہاتھ سے نکل جائے تو پھر وہ واپس نہیں لیاجاسکتا۔ جب انہوں نے گاڑی فروخت کردی تو اسی وقت آپ کا واپس لینے کا حق بھی ختم ہوگیا۔
اس کے علاوہ تحفہ دینے والے یا لینے والے میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجائے تو پھر بھی تحفہ واپس نہیں لیاجاسکتا۔ اگر ان وجوہات میں سے کوئی وجہ نہ ہوتی پھر بھی عطیہ دے کر واپس لینے کے بارے میں شدید وعید آئی ہے اور اسے حدیث شریف میں اس کتے کی طرح کہا گیا ہے جو الٹی کرتا ہے اور پھر اسے چاٹ لیتا ہے۔
اس وعید کے باوجود بھی اگر کوئی شخص اپنی چیز واپس لینے پر بضد ہوتو تب لے سکتا ہے جب عطیہ لینے والا واپس دینے پر راضی ہو، ورنہ عدالت کی مداخلت سے عطیہ واپس لیا جاسکتا ہے اور عدالت بھی اس صورت میں عطیہ واپس کرنے کا کہہ سکتی ہے، جب کوئی رکاوٹ نہ ہو، جب کہ آپ نے حقائق بیان کیے ہیں ان میں ایک نہیں، بلکہ کئی رکاوٹیں ہیں جس کی وجہ سے عدالت بھی ایسا کوئی حکم نہیں دے سکتی۔