ایک دن میں نے ٹیلی ویژن اسکرین پر ایدھی ہومز کے نفسیاتی ایوارڈ میں اُن ماؤں کو دیکھا، جن کی آنکھوں میں اولاد کی حسرت اور انتظار کا واضح عکس تھا۔ اگر دل کا حال لفظوں کے ہیر پھیر سے واضح ہو سکتا تو شاید آج کوئی ماں دکھی نہ ہوتی ۔ ان ماؤں کے چہروں پر مجھے اپنی ماں کا عکس بھی نظر آیا۔ بالکل ایک ایسا ہی کردار ایک ایسی ہی ماں میری بھی ہے۔ میری ماں شادی کے دس سال بعد بیوہ ہوئی تھی۔
اللہ تعالی نے پانچ سال تک اسے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا، پھر شادی کے چھٹے سال بیٹا پیدا ہوا، یقیناً ماں بہت خوش ہوئی ہو گی ۔ بیٹے کی پیدائش سے قبل وہ ادھوری تھی۔ خوشی کے لمحات میں وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور پتا اُس وقت چلا جب بڑے بیٹے کی پیدائش کے ڈیڑھ سال بعد دوسرا بیٹا پیدا ہوا۔ قدرت کتنی مہربان تھی۔ چھوٹے بیٹے کی پیدائش کے دو سال بعد میں اس دنیا میں آئی۔ ماں کی دنیا شاید مکمل ہو گئی تھی۔ تین بچوں کی پرورش میں ماں مگن تھی۔ خوشیوں نے اُس کے گھر کا راستہ دیکھ لیا تھا لیکن اچانک اس گھر کو کسی کی نظر لگ گئی۔
میں سال بھر کی بھی نہیں تھی کہ میرا باپ، میری ماں کا شوہر دنیا سے روٹھ گیا۔زندگی کا محور چھوٹا بیٹا یعنی میرا چھوٹا بھائی تھا۔ چھوٹے بھیا کو انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرتے ہی ایک ادارے میں ملازمت مل گئی اور پھر فوراً ہی اماں نے اُس کی شادی کر دی۔ نوکری کی دوسری تنخواہ بیگم کے ہاتھوں میں گئی اور وقت نے اسی لمحے پلٹا کھایا، جس ماں نے اپنی جوانی بچوں کی تعلیم و تر بیت کی نذر کر دی۔ دن رات محنت کر کے انہیں لکھایا پڑھایا، کسی قابل کیا ، وہ ماں آج حسرت بھری نظروں سے اپنے بچوں کو ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ کیسے بتاؤں کہ میری ماں کو چھوٹے بیٹے کی شادی کے صرف تین سال بعد نفسیاتی اسپتال میں داخل ہونے کے مشورے ملنے لگے۔
آپ یقیناً سوچ رہی ہوں گی کہ میں بھی تو بیٹی ہوں، میرا فرض بھی تو ہے کہ اپنی ماں کا خیال رکھوں، مگر مجھ جیسی یتیم لڑکیوں کو جیسے شوہر ملتے ہیں، اس کا تھوڑا بہت اندازہ بھی آپ کو ضرور ہوگا۔ خیر ایک طرف میرا شوہر سخت اور شکی مزاج، میرا گھر اور بچے اور دوسری طرف میری ماں۔ دونوں میں سے ایک کا چناؤ کرنا پڑے تو زندگی کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ میں نے دل پر پتھر رکھ کر میکے سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لیا، ویسے بھی میکے میں صرف ماں کو میری فکر تھی۔ اور میری ماں نے مجھے صرف شوہر کی فرمانبرداری کی نصیحت کی تھی، مگر آج جب رشتے داروں کے ذریعے ماں کا حال معلوم ہوتا ہے تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔
میرے چھوٹے بھائی کی پہلی تنخواہ ضرور میری ماں کے ہاتھ میں آئی تھی جو انہوں نے پوری خیرات کر دی تھی۔ اس کے بعد سے آج تک ایک روپیہ بھی بھائی نے ماں کے ہاتھ پر نہیں رکھا۔ بڑے بھائی تو ایسے دیار غیر گئے کہ پلٹ کر خبر تک نہ لی کہ ماں کیسی ہے۔ آج غیر لوگ میری ماں کی دعائیں لے رہے ہیں، مگر ان کی اولا د اپنی ماں کے سائے سے خود محروم ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں بیٹی کا فرض نبھاؤں یا بیوی کا ۔ میری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ میری ماں کو چلتے ہاتھ پیروں اس دنیا سے اُٹھانا، انہیں کسی کا محتاج نہ کرنا ( آمین ) آج بھی میری ماں میرے بھائیوں کو جھولی پھیلا پھیلا کر دعائیں دیتی ہے۔
ماں سے ملنے کے لیے جاتی ہوں تو شوہر کے کاغذ کے پرزے سے ڈر لگتا ہے۔ بچوں کو در بدر ٹھوکریں کھاتا نہیں دیکھ سکتی، اس لیے ماں سے ملنے نہیں جاتی۔ دوسروں کی زبانی اُن کا احول سنتی ہوں تو کسی پل قرار نہیں آتا۔ دل خون کے آنسو روتا ہے۔پیاری ماں! مجھے معاف کر دینا۔ میں تمہاری خدمت نہ کر سکی اور یہ بھی پتا نہیں کہ زندگی میں کبھی کر بھی سکوں گی یا نہیں۔ کاش میرے بھائیوں کو اپنی ماں کا خیال آجائے کاش۔
ایک غمزدہ بیٹی