ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد اب دنیا کی نظر اس حادثے کے جغرافیائی سیاست پر پڑنے والے ممکنہ اثرات پر ہے۔
ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر شمال مغربی ایران میں ایک ایسے نازک وقت میں پیش آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں پچھلے 7 ماہ سے غزہ میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے خلاف حقِ دفاع کے نام پر اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔
اس دوران تہران پر بارہا الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ لبنان میں عسکریت پسند گروہ حزب اللّٰہ کی اسرائیل کے خلاف پشت پناہی کر رہا ہے تاہم دونوں ممالک کے دوران صورتحال زیادہ کشیدہ اس وقت ہوئی جب ایران نے شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر مشتبہ اسرائیلی حملہ شام کے جواب میں اسرائیل پر میزائل داغے۔
بعد ازاں، اسرائیل نے جواب میں ایران کے صوبے اصفہان پر محدود جوابی حملہ کیا۔
مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کی میں ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر حادثے سے مختلف قسم کی قیاس آرائیاں جنم لے سکتی ہی جن کی وجہ سے خطّے کی صورتحال میں تناؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔
فی الحال ایران کے سرکاری میڈیا کی رپورٹس میں اس ہیلی کاپٹر حادثے کی اصل وجہ سامنے نہیں آئی۔
اس حوالے سے سپریم لیڈر آیت اللّٰہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے تمام امور جاری رکھے گی۔
اسرائیل کا ایک بڑا اور مضبوط اتحادی ابھی تک ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں جان بحق ہونے کی خبر پرخاموش ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر امریکا اور ایران کے تعلقات میں اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔
یاد رہے کہ 2018ء میں، اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایرانی ایٹمی پروگرام سے متعلق کیے اپنے ایک معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے اور اُنہوں نے ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں لگا دی تھیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام نے ایران کو ایٹمی پروگرام کے معاہدے خلاف ورزی پر اکسایا۔
بین الاقوامی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، ابراہیم رئیسی نے2021ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ایران پر لگائی گئی امریکی پابندیوں سے ریلیف حاصل کرنے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں بھی سخت موقف اختیار کیا۔
مشرقِ وسطیٰ میں صورتحال میں کشیدگی پیدا ہونے پر اسرائیل کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات کے باوجود بھی امریکا نے غزہ میں جنگ کے نتیجے میں ہونے والی جانی نقصان پر صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔
امریکی صدر جو بائیڈن نےرفح پر حملہ کرنے کی صورت میں اسرائیل کو اسلحہ سپلائی روکنے کی دھمکی بھی دی جس پر اسرائیل کا شدید ردعمل سامنے آیا۔
رپورٹس میں دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ حکّام خطّے میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کے لیے اپنے ایرانی ہم منصبوں کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کر رہے ہیں۔
اب ابراہیم رئیسی کے انتقال کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں مزید عدم استحکام پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔