• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ، توہین عدالت نوٹس زیر بحث، عدلیہ کو اختیار نہیں، غصے میں جو مرضی آئے کہہ دے، وزیر قانون، کئی سینیٹرز برہم

اسلام آباد(جنگ نیوز/ایجنسیاں)ایوان بالا میں حکومتی سینیٹرز نے فیصل واوڈا کو ملنے والے توہین عدالت نوٹس کے معاملے پر عدلیہ پر شدید الفاظ میں تنقید اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔ سینیٹ میں بدھ کو توہین عدالت نوٹس سے متعلق گرما گرم بحث ہوئی جس کے بعد فیصل واوڈا کےنوٹس کا معاملہ سینیٹ سیکرٹریٹ کو بھیج دیاگیا۔ وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نےکہا کہ آئین عدالت کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ غصے میں جو مرضی آئے کہہ دے‘ کیا ہمیشہ سیاستدان ہی سزائیں بھگتیں گے کہ کبھی کسی وزیر اعظم کو لٹکا دیں تو کسی کو گھر بھیج دیں‘ن لیگ کے طلال چوہدری نے کہا کہ عدلیہ کا وقار پارلیمنٹرینزکو توہین عدالت کا نوٹس دینے سے نہیں کارکردگی سے بلند ہوگا‘پراکسی کہنا کوئی برداشت نہیں کرے گا۔ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری نے کہا کہ توہین توہین کا کھیل بند کیا جائے‘یہ نہیں ہونا چاہیے کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کراچی کے ہیں اس لیے انہیں توہین عدالت کا نوٹس کردو ۔سینیٹرکامران مرتضیٰ نے کہا کہ اگر آپ ججز کو ایسے نشانہ بنائیں گے تو تاثر پیدا ہو گا کہ آپ کسی اور کی پراکسی بن رہے ہیں۔سینیٹر ایمل ولی نے بھی کہا کہ ہم کیوں پرائی لڑائی میں گھسیں، پراکسی کو پراکسی کہنے سے تکلیف ہو گی۔عدلیہ پر تنقید پر تحریک انصاف نے ایوان میں احتجاج کردیا ‘ سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں ہو سکتی، اس پر شیری رحمن نے کہا کہ اگر رکن کا استحقاق مجروح ہو تا ہے تو بات ہو سکتی ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ فیصل وواڈا کا معاملہ سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ بدھ کوقائم مقام چیئرمین سینیٹ سیدال خان اور پزائیڈنگ افسر شیری رحمن کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس ہوا‘اس دوران خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ تنقید ہم پر بھی ہوتی ہے لیکن جو ادارے کام کر رہے ہیں وہ بھی دائرہ اختیار میں رہ کر کام کریں، آئین پاکستان کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں دیات کہ وہ غصے میں جو دل میں آئے وہ کہہ دے، وہ کہے کہ ابھی یہ کام ایسے نا ہوا تو وزیر اعظم یا کابینہ کو یہاں بٹھا دوں، یہ منتخب نمائندے ہیں، آئین کسی عدالت کو وزیر اعظم کی طلبی کا اختیار نہیں دیتا‘آپ فیصلوں کے ذریعے جو کرنا چاہتے ہیں کریں یہ شرط تو نہیں کہ سامنے ساری کابینہ یا وزیر اعظم کو سب کام چھڑواکر بٹھا دیں‘کسی شخص کے بارے میں کہنا کہ وہ فلاں کا ایجنٹ ہے تو وہ غلط ہے۔طلال چوہدری نے کہا کہ مجھے عدالت سے معافی نہیں ملی لیکن جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن مل گئی۔پاکستان میں سلیکٹو توہین عدالت کے کیسز لگتے ہیں‘ مساوات کا کوئی قانون نہیں ‘پوری دنیا میں توہین عدالت کا قانون ختم ہوچکا لیکن آج بھی ہم 19ویں صدی کے ہتھکنڈے اس لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ کوئی بول نا سکے۔درگزر کا اصول عدالت کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، اگر سسلین مافیا، پراکسی جیسے الفاط کہیں تو اسے کون برداشت کرے گا؟جب نواز شریف کا کیس چل رہا تھا تو ثاقب نثار نے مجھے پیغام بھجوایا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف بیان دو گے تو پارلیمنٹ جا ؤگے ورنا جیل جاؤگے‘ہم لڑنا نہیں چاہتےلیکن اس کام کو روکیں ابھی، بس۔قبل ازیں فیصل سبزواری نے کہا کہ آئین صرف ججز کی نہیں بلکہ عوامی نمائندوں کی عزت کے حوالے سے بھی بات کرتا ہے، ہماری انفرادی اور مشترکہ عزتیں اچھالنے کا حق کسی کو نہیں ہونا چاہیے‘یہاں تو توہین توہین کا کھیل کھیلا جا رہا ہے،ٹی وی پر صبح سے شام تک ریمارکس کا کھیل چلتا ہے، ہماری پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔

اہم خبریں سے مزید