اسلام آباد (فخر درانی) سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ کا نام دبئی لیکس ڈیٹا میں شامل ہے لیکن معزز جج نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے دور میں نہ صرف اس جائیداد کو ظاہر کیا بلکہ اسے عوام کے سامنے بھی پیش کرکے شفافیت کی مثال قائم کردی ۔ دبئی کی جائیداد ظاہر کرنے کے باوجود، جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے باضابطہ جواب میں کہا ہے کہ ایک وکیل کی حیثیت سے انہوں نے دبئی میں ایک آف پلان پراپرٹی (جو اب تک مکمل نہیں ہوئی) میں مدتی قسطوں کے منصوبے کے ساتھ سرمایہ کاری کی تھی لیکن یہ پروجیکٹ مکمل نہیں ہوا اور تمام سرمایہ ضایع ہوگیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ وہ واحد جج ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی معاملات میں شفافیت کو یقینی بنانے کی خاطر، مقامی یا غیر ملکی اثاثے ظاہر کیے ہیں۔ جولائی 2017ء میں جسٹس منصور علی شاہ نے دبئی کی جائیداد سمیت اپنے تمام تر اثاثے ظاہر کیے۔ اس وقت وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ ان کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے مالی سال 2016 کے ٹیکس گوشواروں میں دبئی کی 2.38؍ ملین روپے کی جائیداد ظاہر کی۔ دبئی لیکس میں جسٹس سید منصور علی شاہ کا نام بھی شامل ہے اور لیکس میں جبل علی کے علاقے میں ڈاؤن ٹاؤن میں میسن ریزیڈنس کلیکشن میں ان کی ایک پراپرٹی سامنے آئی ہے۔ دی نیوز نے جسٹس منصور علی شاہ کو سوالنامہ بھیجا اور پوچھا کہ کیا وہ اب بھی اس جائیداد کے مالک ہیں؟ کیا وہ پراپرٹی کو استعمال کرتے ہیں یا اسے کرایے پر دے رکھا ہے؟ سینئر پیونی جج نے اس نمائندے کو مفصل جواب بھیجا ہے جو یہاں پیش کیا جا رہا ہے: ’’میں آپ کا مشکور ہوں کہ اس معاملے پر آپ نے وضاحت طلب کی۔ میں محو سفر ہوں اور مئی کے آخر تک پاکستان پہنچوں گا لیکن میں آپ کے سوالوں کا جواب دیتا ہوں۔ جیسا کہ آپ کے پیغام میں بتایا گیا ہے، یہ لین دین 12 اگست 2009 کا ہے (یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ تاریخ درست ہے یا نہیں) یعنی لاہور ہائی کورٹ میں میری تقرری سے قبل کی بات ہے۔ ایک وکیل کی حیثیت سے میں نے دبئی میں ایک آف پلان پراپرٹی (جو اب تک تعمیر نہیں ہوئی) میں سرمایہ کاری کی تھی جس کی قسطیں وقتاً فوقتاً (پیریاڈیکل) ادا کرنا تھیں۔ ابتدائی ڈپازٹ اور شاید چند قسطوں کی ادائیگی کے بعد، دبئی میں پراپرٹی کا ایک بحران آیا جس کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا لہٰذا مزید قسطیں ادا نہیں کی گئیں اور کوئی خریداری مکمل نہیں ہو پائی۔ درحقیقت سارا کام ادھورا رہ گیا اور جو سرمایہ کاری کی گئی وہ ضایع گئی۔ ٹیکس ریٹرن میں ٹیکس سال 2023ء تک اس پروجیکٹ اور اس میں کی جانے والی ادائیگی ظاہر کی گئی ہے۔ چونکہ 2010 کے بعد جب یہ محسوس ہوا کہ دبئی میں پراپرٹی کا بحران کی وجہ سے یہ پروجیکٹ مکمل نہیں ہوا اسلئے مزید کوئی ادائیگی نہیں کی گئی، لہٰذا ادا کردہ تمام رقم ناقابل وصول اثاثہ سمجھا جا سکتا ہے۔ چونکہ کوئی جائیداد خریدی ہی نہیں گئی تو اسے کرایے پر دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میرے ٹیکس گوشوارے لاہور میں اے ایف فرگوسن اینڈ کمپنی نے مکمل کیے تھے اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا رابطہ اُن سے کرا سکتا ہوں۔‘‘ سینئر پیونی جج جسٹس سید منصور علی شاہ کے جواب کے بعد اس نمائندے نے دبئی لینڈ رجسٹری کی ویب سائٹ سے دوبارہ تصدیق کی جس سے جسٹس منصور کے جواب کی تصدیق ہوگئی کہ مذکورہ پراپرٹی کا وجود نہیں ہے۔