کراچی( ثاقب صغیر / اسٹاف رپورٹر) کراچی میں بڑی تعداد میں آنے والے غیر قانونی اسلحہ کے بارے میں کسی ادارے کے پاس ڈیٹا موجود نہیں ہے،شہر میں منظم طور پر مختلف نیٹ ورکس کے کارندے آن لان اسلحہ گھروں تک پہنچا رہے ہیں،اسٹریٹ کرائم میں استعمال ہونے والا اسلحہ کرائے پر بھی دستیاب ہے،آئی جی پولیس غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ غیر قانونی اسلحے کی روک تھام اور اس میں ملوث گروپس کو پکڑنے کا ٹاسک سی ٹی ڈی کو دیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق شہر میں اسٹریٹ کرائم سمیت جرائم کے مختلف واقعات میں غیر قانونی اسلحے کا استعمال ہو رہا ہے،پولیس اور محکمہ داخلہ سمیت کسی بھی ادارے کے پاس شہر میں موجود غیر قانونی اسلحے کی تعداد کی حوالے سے مصدقہ ڈیٹا موجود نہیں ہے۔کراچی پولیس کے مطابق شہر میں ہونے والے جرائم کے واقعات میں قانونی اسلحے کا استعمال نہیں ہوتا بلکہ غیر قانونی اسلحہ وارداتوں کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔اس وقت شہر میں اس وقت اسلحہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے راستے سے آ رہا ہے۔پولیس کے مطابق دیسی ساختہ اسلحہ درہ آدم خیل سے جبکہ باہر کا اسلحہ زیادہ تر بلوچستان کے راستے سے شہر میں آتا ہے۔درہ آدم خیل میں موجود مختلف آرمز کمپنیوں کی جانب سے اب آن لائن یہ اسلحہ کراچی بھیجا جا رہا ہے۔فیس بک پیجز کے ذریعے اسلحے کے بارے میں تشہیر کی جاتی ہے ،پھر جو افراد اسلحہ خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں انھیں واٹس ایپ نمبر دیا جاتا ہے جس پر اسلحہ کی تصاویر اور ویڈیوز دکھائی جاتی ہیں اور اسلحے کے حوالے سے تفصیلات پوچھی جاتی ہیں۔اسلحے کے ریٹ طے ہونے کے بعد کراچی میں پہنچانے کا وعدہ کیا جاتا ہے اور پھر مسافر بسوں،فروٹ کے اور دیگر ٹرکوں اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کے ذریعے یہ اسلحہ کراچی لایا جاتا ہے۔کراچی پہنچانے کے لیے 10 ہزار روپے فی پستول یا فی اسلحہ کمیشن لیا جاتا ہے۔پولیس نے بتایا کہ اسلحہ خریدنے والوں میں تمام افراد جرائم پیشہ نہیں ہوتے بلکہ اسلحے کا شوق رکھنے والے افراد بھی درہ آدم خیل سے اسلحہ منگواتے ہیں۔شہر میں اسٹریٹ کرائم سمیت دیگر جرائم میں ملوث افراد کو کرائے پر بھی اسلحہ مل جاتا ہے۔ماضی میں ایسے ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں جو کرائے پر اسلحہ دیتے تھے اور یہ دھندہ اب بھی چل رہا ہے۔پولیس کے مطابق درہ آدم خیل سے جو اسلحہ آن لائن بک کروایا جاتا ہے اس میں پستول کا ریٹ 35 سے 55 ہزار روپے جبکہ کلاشنکوف کا ایک لاکھ 30 ہزار روپے کراچی پہنچانے کا لیا جا رہا ہے۔پولیس نے بتایا کہ مسافر بسوں اور ٹرالرز ،ٹرکوں اور کے ڈرائیورز کی تنخواہ چونکہ کم ہوتی ہے اسلیے وہ کراچی آتے وقت تین سے چار پستول خفیہ خانوں میں چھپا کر اپنے ساتھ لے آتے ہیں اور اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں۔پولیس نے بتایا کہ پہلے پشاور کے بس اڈوں سے آنے والی بسوں کے ذریعے یہ کام چل رہا تھا، وہاں سختی کے بعد اب مردان یا مانسہرہ کے بس اڈوں سے چلنے والی بسوں کے ذریعے یہ اسلحہ کراچی پہنچایا جا رہا ہے،آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ ہم نے شہر میں غیر قانونی اسلحے کی روک تھام اور اس میں ملوث گروپس کو پکڑنے کا ٹاسک سی ٹی ڈی کو دیا ہے۔آئی جی سندھ نے بتایا کہ اسلحہ کا کاروبار ایک منافع بخش کاروبار ہے۔زیادہ تر اسلحہ درہ آدم خیل سے مسافر بسوں میں آتا ہے۔وہاں سے آنے والے مسافر چار سے پانچ پستول ساتھ لے آتے ہیں جن سے ان کا کرایہ بھی نکل جاتا ہے اور منافع بھی ہو جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ مختلف فورمز پر انہوں نے یہ بات کی ہے کہ درہ آدم خیل میں جو اسلحے کی انڈسٹری ہے اسے ریگولرائز کیا جانا چاہیے ۔