قارئین کرام! زیر نظر موضوع پر ’’آئین نو‘‘ کی گزشتہ اشاعت (8جون) میں پاک بھارت الیکشن۔24کے چار پہلوئوں میں مماثلت اور انکے بڑے درجے پر سبق آموز ہونے کو واضح کیا جو یہ تھے 1۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کی غیر آئینی ذہنیت کے عکاس سرکاری غیر جمہوری اقدامات،2۔ سیاسی مخالف مقابل کو مسلسل دبائو اور خوف میں رکھنے کی حکمت عملی، 3۔ جملہ ماورائے آئین اور غیر جمہوری اقدامات اور 4۔ میڈیا پر ممکن حد تک حکومتی کنٹرول۔ اسکے جواب میں دونوں ممالک کے عوام نے بذریعہ ووٹ کمال سبق آموز اور نتیجہ خیز عوامی ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ بھارت میں تو آر ایس ایس کی 1925ء میں متعارف کرائی گئی مذہبی سیاسی فلاسفی، ہندوتوا (مکمل ہندو بھارت) کا سرگرم اجرا حکومتی پلیٹ فارم سےپہلے مودی دورمیں ہی ہوگیا تھا جو نظری لحاظ سے بھارت کے سیکولر آئین سے متصادم تھا۔ دوسرے دور کے اختتام پر اسکی بنیاد پر پالیسیاں قانون و فیصلہ سازی اور عملدرآمد میں حکومتی سرگرمیاں انتہا پر پہنچنے سے بھارتی آئین کا عکاس جمہوری و سیاسی عمل جاری رہتے بھی متاثر ہوا۔ اسکا ہدف اولین ترجیحی طور پر مسلمان اور بھارتی سوسائٹی کے سیکولر ازم کے پرزور حامی سیاسی حلقے، میڈیا اور شخصیات رہیں۔ مسلم سیکشن آف انڈین سوسائٹی کو تو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی تیاری حکومتی ایجنڈے کے طور پر اتنے فسطائی انداز میں ہونے لگی کہ دنیا بھر میں آوازیں اٹھیں کہ بھارتی مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے اور رکھنے کیلئے ان پر مظالم اور بنیادی حقوق غصب کرنے کیلئے غیر آئینی قانون سازی کی جا رہی ہے۔ یو این او ہیومن رائٹس کمیشن نے لگاتار اپنی سالانہ رپورٹ میںپردہ چاک کیا۔ اس طرح مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کیا گیا۔ گودی میڈیا کا ہندوتوا کا جادو پہلے دور میں جگائے رکھنے سے وزیر اعظم مودی اور جماعت کی اسی ٹریک پر چلنے کی دیدہ دلیری بلند درجے پر چلی گئی، سو تیسرے دور میں بھارتی سیکولر آئین کو ٹھکانے لگا کر سیاسی فلاسفی کا ٹیلر میڈ آئین لانے کی درپردہ اور کھلی کوششیں بھی پورے دوسرے دور میں جاری رہیں۔
ادھر پاکستان میں بھی کورونا کی دو سالہ عالمی وبا کیساتھ عمران حکومت کے ساڑھے تین سال بعد ہی متروک ہارس ٹریڈنگ کے زور پر رجیم تبدیلی سے بڑا بحران ہوتے ہی لاقانونیت و دو قانونیت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ خدا کی پناہ، دوسری جانب عمران خان کے حکومت گنواتے ہی سوشل میڈیا کی رضا کارانہ معاونت سے انکی مقبولیت کا گراف حیرت انگیز طور پر اتنا بڑھنے لگا کہ ایک طرف حکومت نے انتخابات سے مکمل گریز کی راہ پکڑ لی دوسری جانب وہ سیاسی حریف کی عوامی پذیرائی سے بوکھلا کر مکمل فسطائیت پر اتر آئی، الیکشن کا انعقاد بحال ہوگیا، عدالتی احکامات کی حکم عدولی دھڑلے سے ہونے لگی۔ لیکن نہ بھارت میں پتہ چلا (جیسے نہ پاکستان میں)کہ عوام مودی کی آمرانہ پالیسیوں اور نفرت کی سیاست سے اتنے نالاں ہوگئے ہیں، بھارتی بھاجپا کے پاور بیس یو پی میں بھی آنیوالے الیکشن میں یہ کچھ ہوگا کہ مودی انتخابی مہم میں مقتدر صوبے کی 80میں سے 75نشستیں لینے کا دعویٰ اختتام مہم تک کرتے رہیں گے لیکن پاکستانی ووٹرز کی طرح وہ بھی قیامت کی چال چل دینگے۔ ایسے کہ بی جے پی کے مرکز اقتدار یوپی میں وہ 29 نشستیں گنوا کر 33 ہی حاصل کرسکی جبکہ یو پی میں اسکی مقابل دوسری جماعت سماج وادی 37 نشستیں جیت کر بھاجپا کے مفتوح قلعے یوپی میں غالب ہو کر نمبر ایک جماعت بن گئی۔ ادھر پاکستان میں نون لیگ پاور کے مرکز و محور پنجاب میں تو پارٹی قائد کی چوتھی وزارت عظمیٰ کا خواب ہارس ٹریڈنگ اور دیگر حربوں، ہتھکنڈوں سے عمران حکومت اکھاڑنے اور سیاسی وانتخابی عمل کو منقطع کرنے پر جو انتخابی احتساب ن لیگ کا کیا گیا وہ بھارتی بھاجپا سے کہیں بڑھ کر ہے۔ لیکن یہاں تو بھارتی مودی حکومت اور انتخابی نظام پاکستانیوں کیلئے کتنا قابل رشک اور مبنی بر انصاف معلوم دے رہا ہے کہ مودی نے ٹارگٹڈ سیکشنز کیساتھ اپنے دور میں جو بھی سلوک کیا لیکن انہیں تشکیل حکومت کے حق سے تو محروم نہیں کیا یا وہاں کے نظام سیاست و حکومت نے بھاجپا کو بھی ایسا نہیں کرنے دیا۔ کتنا بڑا سبق ہے پاکستانی فیصلہ سازوں کیلئے جو واضح کرتا ہے کہ بھارت میں سیاسی و معاشی استحکام کس طرح ہوا اور قائم ہے۔ بھارتی انتخابات کے حتمی نتائج مکمل ہونے پر واضح ہوگیا ہے کہ اتحادی بیساکھیوں کے سہارے قائم ہونے والے تیسرے مودی دور کی حکومت کتنی کمزور اور لچک دار ہوگی،اس پر بہت دلچسپ تبصرے، تجزیے بھارتی میڈیا پر آ رہے ہیں۔ یہ ہی کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے کہ یہاں بھی حکومت برائلر ہی نہیں بنی اخلاقی بنیاد سے بھی محروم جس کی عوامی جڑیں ہی نہیں، جو تھیں خشک ہوگئیں۔ آپ ہی کی طرح مودی جیت کر بھی ہر فوٹیج فوٹو میں صدمے سے دوچار نظر آ رہے ہیں۔ ہمارا میڈیا کنٹرولڈ ہو کر بھی حکومت کی یہ نئی شخصیت عوام کے سامنےپیش کرنے کی گنجائش تو پیدا کر رہا تھا، اب شنید ہے کہ یہ بھی نہیں کرنے دیا جائیگا اور کوئی اربوں روپے کے بجٹ سے فائر وال بھڑکے گی جو میڈیا سے منسلک ’’شرپسند صحافیوں‘‘ کو کڑوی صحافت نہیں کرنے دے گی۔ اب تو صحافیوں کیلئے فائر فائٹر بننا بھی کوئی آسان نہ ہوگا ایک تو عدلیہ کی طرح تقسیم ہیں، دوجے ڈر اپنی جگہ ایساکہ کوئی ’’کفر ‘‘ڈھایا تو کوئی قیامت نہ آ جائے۔ دال روٹی کمانے سے بھی جائیں۔ گودی میڈیا کے صحافی تو ہمارے ہاں آٹے میں نمک برابر ہیں۔ معلوم نہیں کہ فائر وال کیا گل کھلائے گی؟پہلے ہی قیامت کی گرمی پڑ رہی ہے۔ بجٹ کی بجلیاں گرنے کی خبریں الگ آ رہی ہیں۔ ریٹائرڈ پروفیسرز پنشن پر ٹیکس لگنے کی غیر مصدقہ خبروں سے ہی پریشان ہیں۔ پہلے ہی دوائیاں مہنگی اور ناپید ہونے پر ان کا رونا دھونا جاری ہے۔ کسان گندم کے ڈھیر چھوٹے چھوٹے گھروندوں کے گرد ونواح میں لگائے بیٹھے ہیں۔ اب تو کوئی سستی بھی نہیں اٹھا رہا، اور ہاں میاں نواز شریف صاحب متوجہ ہوں ’’سستی روٹی‘‘ پر ایک سروے تو کروا دیں، قیمت ہی نہیں وزن ، حجم اور کوالٹی کے حوالے سے بھی۔ اور اب آپ سرگرم ہوئے ہیں تو سیاسی مخالفین خصوصاً خواتین کی رہائی کیلئے اپنی نرم دلی کا ثبوت دیں۔ پنجاب پولیس بہت بدنام ہو رہی ہے۔ ایک سال کی اتنی سزا کافی نہیں؟ پہلے ہی حکومتی اخلاقی بنیاد ہے ہی نہیں کچھ تو اس کا امیج درست کریں۔ اور ہاں یقین جانیے دو کام بہت اہم ہیں، ایک جو وفا شعار ساتھی آپ کے ہم سفر نہیں رہے، غور فرمائیں کیوں نہیں رہے، دوسرے اپنی جماعت کے عاقلوں اور بالغوں سے انڈین اور پاکستانی الیکشن کی اسٹڈی کروائیں جو پاکستان کے ہر سیاست دان کے مطالعہ کا بڑا سامان ہے کہ اس میں بے حد مفید سبق واضح بھی ہیں اور پنہاں بھی۔ وما علینا الاالبلاغ۔