ہائیڈ پارک … وجاہت علی خان کہنے کو تو پاکستان کی قومی زبان اردو ہے مگر حیران کن حد تک عام پاکستانیوں کی زبان یہ نہیں ہے۔ اس ملک کے تمام تر معاہدات اور سرکاری کام انگریزی میں ہوتے ہیں۔اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت میں 100سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن بھارت کی کوئی قومی زبان نہیں ہے۔ آئین ہند کی دفعہ 17کے تحت مرکزی حکومت ہند کی سرکاری زبان ہندی اور کام کاج کی زبان انگریزی ہے جب کہ 20دیگر زبانوں کو بھی سرکاری حیثیت حاصل ہے لیکن موقع کی مناسبت سے انگریزی اور ہندی میں ہی سرکاری امور انجام دیئے جاتے ہیں ۔ تُرکی زبان کے لفظ ’’اُردو‘‘ کا مطلب لشکر ہے حالانکہ اس زبان کی ابتدا سے متعلق متضاد آرا پائی جاتی ہیں لیکن ان سب میں ایک بات جو مشترک ہے یہ کہ جنوبی ایشیا میں اُردو کا آغاز برصغیر میں مسلمان فاتحین کی آمد کے بعد ہوا۔ اس کی تاریخ اور افادیت سے متعلق تو دفتر لکھے جا سکتے ہیں لیکن ماضی قریب کا حوالہ یوں ہے، مغل شہنشاہ اکبر اعظم نے حکم دیا کہ ایک ایسی نئی زبان متعارف کرائی جائے جو سب کی سمجھ میں آئے چنانچہ جب تمام فوجیوں کو اردو زبان کی تربیت دی گئی تو اسی مناسبت سے اردو کولشکری زبان کہا جانے لگا۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عربی ، فارسی اور ترکی زبان کی آمیزش سے جدید اردو کا آغاز دہلی سے ہوا اور آج دنیا بھر میں بولی جانے والی بڑی زبانوں میں اردو پہلے 20نمبروں میں آتی ہے اور کم و بیش اسے آٹھ کروڑ سے زیادولوگ بولتے ہیں اور اگر ہندی اور اردو کو ایک ہی سمجھ لیا جائے تو یہ دنیا بھر کی چوٹی کی زبانوں میں چوتھے نمبر پر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اردو پاکستان کے تمام صوبوں میں سرکاری حیثیت کی حامل ہے تو پھر اسے لکھنے اور بولنے میں شرمندگی کیوں؟ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں مجھے خود یہ مشاہدہ کئی بار ہوا جب پاکستان سے برطانیہ کے دورے پر آنے والے کئی ایک وزراءے اعظم وصدور اور وزرا جو انگریزی کی تھوڑی بہت شُد بُد رکھتے ہیں کسی ایسی تقریب میں بھی انگریزی کے کان مروڑنے شروع کر دیتے ہیں جہاں 95فیصد اور بسا اوقات 100فیصد پاکستانی موجود ہوتے ہیں، چنانچہ ایسے ماحول میں بھی بے وجہ انگریزی بولنا احساس کمتری کی نشانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور اس حقیقت کا غماز بھی کہ یہ لوگ اپنی قومی اور مادری زبانوں میں اظہار سے کس قدرشرمندگی یا نفرت محسوس کرتے ہیں ۔ دنیا کی مہذب قوموں کیلئے ان کی قومی یا مادری زبانیں صرف اظہار کا ذریعہ ہی نہیں ہوتیں بلکہ ان کا فخراور غر ور بھی ہوا کرتی ہیں ، آپ یورپ کے 28ملکوں میں چلے جائیں کسی سے انگریزی میں بات کر یں تو وہ انگریزی کی بجائے اپنی زبان میں ہی گفتگو کوترجیح دیتا ہے ، چاہے اسے انگریزی سے واقفیت بھی کیوں نہ ہو ۔ برطانیہ سے اگر ہوائی جہاز پرسفرکریں تو آدھے گھنٹے میں فرانس پہنچا جا سکتا ہے اور پھر تر کی تک کوئی 26ملک درمیان میں آتے ہیں لیکن اس کے باوجود کہ برطانیہ ایک بڑا ملک ہے اور اس نے دنیا کے ایک بڑےخطے پر حکومت بھی کی تھی لیکن یہ فرانس، جرمنی، ہالینڈ ، ہنگری، بلجیم، ڈنمارک، اسپین، پرتگال، سوئٹزرلینڈ، سویڈن، پولینڈ، اٹلی ، یونان اور دیگر کسی بھی یورپی ملک میں اپنی انگریزی زبان مسلط کرنے میں کامیاب نہیں ہوا اور نہ ہی ان ممالک کے لوگ انگریزی میں گفتگو کرنا فخر سمجھتے ہیں جب کہ ہمارے پاکستانی’’کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘‘ کے مصداق ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولنا اپنی بڑائی سمجھتے ہیں حالانکہ انگریزی میں گفتگو کرنا علمیت کی نشانی نہیں سمجھا جا سکتا ، اس لئے چین ، روس ، جاپان ، لاطینی امریکہ کے کئی ایک ممالک اور پورا یورپ بین الاقوامی سطح کے فورمز پر اپنی اپنی زبانوں میں گفتگو کو باعث افتخار سمجھتے ہیں، یہ لوگ اپنی زبان میں تقریر کرتے ہیں اور مترجم اس کا ترجمہ وہاں بیٹھے مختلف زبانیں بولنے والے سیکڑوں افراد کیلئے کرتے ہیں تو کیا ایسا کرنے سے ان رہنماؤں کا قد چھوٹا ہو جا تا ہے؟ درست ہے کہ بدقسمت اقوام پر چاروں طرف سے نفرین اور توہین آمیز رویئے حملہ آور ہوتے ہیں جس طرح پاکستان کی قومی زبان اردو ہے لیکن ملک کے اندر بھی اس کی 98 فیصد سرکاری خط وکتابت انگریزی میں ہوتی ہے۔ اسی طرح پنجابی زبان جو تاریخی طور پر انتہائی پرانی حروف تہجی کے اعتبار سے بھی انتہائی فصیح اور بولنے سمجھنے کے لحاظ سے بھی بڑی زبان ہے اور مستزاد یہ کہ دنیا میں پنجابی بولنے والے افراد 15کروڑ سے زیادہ ہیں یہ بیک وقت ہندومت،سکھ مت، اسلام اور مسیحیت کے ماننے والے بھی سمجھتے بولتے ہیں اور سنیے اور سر دھنیے کہ دنیا میں اگر پنجابی بولنے والے 15کروڑ لوگ ہیں تو ان میں 12کروڑ صرف پاکستان میں ہیں چنانچہ اس لحاظ سے پنجابی پاکستان کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ بولی سمجھی جانے والی زُبان ہے۔ آج دُنیا کی کُل آبادی 8ارب ہے اور یہاں 7000زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن عام فہم 23زبانیں ہیں اور ان 23 زُبانوں میں پاکستان میں یا مغربی پنجاب میں بولی جانے والی پنجابی دُنیا کی 23بڑی زُبانوں میں 10 بڑی زُبان ہے جسے 12کروڑ افراد بولتے ہیں لیکن وائے ری قسمت کہ پاکستانی پنجاب کے کثیر تعداد میں کم ظرف پنجابی اپنی زبان میں گفتگو کرنا اپنی توہین خیال کرتے ہیں ۔ ایسےلوگ پنجابی پر اُردو اور اُردو پر انگریزی کو فوقیت دے کر خود کو ماڈرن اور پڑھا لکھا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ کہ 2007میں میاں شہباز شریف جب لندن میں جلا وطنی کے دن گزار رہے تھے میں نے ان کے پارک لین والے فلیٹ پر اپنے ادارے کے لئے انٹرویو کیا تھا ۔ انٹرویو کے آغاز پر یہ جاننے کیلئے کہ میاں شہباز شریف اپنی ماں بولی سے کس قدر محبت رکھتے ہیں میں نے کہا کہ میاں صاحب ، آپ کا تعلق لاہور سے ہے اور میرا بھی تو میں چاہتا ہو کہ یہ انٹر ویو پنجابی زُبان میں ہولیکن یہ شائع اُردو میں ہی ہوگا ۔ میاں صاحب نے برملا کہا بسم اللہ کرو جی ! چنانچہ اس دن کے بعد آج تک جب بھی میاں صاحب سے ملاقات ہوتی ہے ہماری گفتگو پنجابی زبان میں ہی ہوتی ہے ۔ قارئین کی معلومات کیلئے یہ حقیقت بھی عرض ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بھی پنجابی ہے جو کہ ملک میں 55 فیصدافراد کے اظہار کا ذریعہ ہے اور اگر پاکستان میں بولی جانے والی شاہ مکھی پنجابی اور بھارتی پنجاب کی گرمکھی پنجابی کو ملا لیا جائےتو پنجابی زبان کا حجم مزید بڑھ جا تا ہے ۔ گرمکھی پنجابی کی قسمت اچھی ہے کہ بھارتی پنجاب کی سرکاری زبان کے درجے پر فائز ہے جبکہ پاکستان پنجاب کی بدقسمت شاہ مکھی پنجابی صرف نام کی ’’شاہ‘‘ ہے حالانکہ شاہ کے حالت شاہ کے چو بداروں سے بھی حقیر تر ہے، چنانچہ سرکاری پشت پناہی نہ ہونے کی وجہ سے پنجابی زبان زوال پذیر اور کم ترین کے درجے پر فائز ہے، حالت یہ ہو چکی ہے کہ کوئی پنجابی بھی اس زبان میں گفتگو کر نا اپنی تو ہین سمجھتا ہے ۔ پنجاب کے عام گھروں میں بھی نئی نسل اردو یا انگریزی میں گفتگو کرتی ہے اور ایک انتہائی بے وزن سا استدلال یہ دیا جا تا ہے کہ جناب ! آج کل یہی رواج ہے حالانکہ کوئی 30 سال پہلے پنجاب میں اس قسم کی صورتحال نہیں تھی ۔ گھروں میں والدین اور بچے اپنی مادری زبان پنجابی میں ہی گفتگو کرتے تھے۔ بھارتی پنجاب کے سکھوں نے اپنی ماں بولی کو دنیا میں قد آور کر نے اور اس کی توقیر میں اضافہ کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ یہ لوگ ڈھول اور بھنگڑے کے ذریعہ پنجابی زبان کو امارات ، یورپ ، امریکہ اور لاطینی امریکہ تک لے گئے ہیں، ادھرپاکستان میں شاہ مکھی پنجابی اور پنجابیوں کی صورت کچھ یوں ہے کہ یہ لوگ بابا فرید شکر گنج ، سلطان باہو، شاہ حسین اور بابا بلھے شاہ جیسے مسلمان صوفی بزرگوں کو بھی بھول گئےجنہوں نے پنجابی ہوتے ہوئے پنجابی زبان کو ہی اپنےاظہار اور بے مثل کلام کا ذریعہ بنایا اور ہمارے پنجابی لوگ ہیر رانجھا اور سسی پنوں جیسی شہرہ آفاق تحاریر کو بھی بھلا بیٹھے۔ یہ بات درست ہے کہ آج انگریزی زبان بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے اس لئے اس پر عبور ہونا بھی ضروری ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنی زبان کو گونگا بنادیا جائے؟ ہمارا حال تو یوں ہے کہ رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پائے رکاب میں۔