• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: زید اور بکر نے مل کر پانچ سال قبل ایک پرنٹنگ پریس کی بنیاد رکھی، یہ طے پایا کہ زید سرمایہ کاری کرے گا جبکہ بکر بطور ورکنگ پارٹنر اپنی ذمہ داریاں نبھائے گا، منافع میں زید کا 66فیصداور بکر کا 33فیصد حصہ طے پایا۔ پانچ سال انہوں نے مل کر یہ کمپنی چلائی کسی سال منافع تو کسی سال نقصان کا سامنا بھی کیا۔ 

زید کو چونکہ اپنے بچپن کے دوست پر پورا اعتماد تھا، اس لیے اس نے اس دوران کبھی اس سے حساب کا تقاضہ نہیں کیا اور بکر اس دوران کمپنی کے معاملات کو بلا شرکت غیرے اپنی مرضی سے چلاتا رہا۔ پہلے پہل بکر کا کوئی ماہانہ مشاہرہ طے نہیں ہوا تھا، بعد میں آپس کے صلاح مشورے سے بکر کے لیے ماہانہ 1,65,000/=روپے بطور تنخواہ طے پایا، گاڑی، پٹرول اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔

یہاں یہ یادر ہے کہ گاڑی کمپنی کی طرف سے دی گئی تھی جبکہ پٹرول و دیگر مراعات بکر از خود کمپنی سے لیتا رہا ۔گزشتہ سال کمپنی کے چند کسٹمرز کی جانب سے زید کو متنبہ کیا گیا کہ آپ کمپنی کے معاملات کو دیکھیں، وہ مسلسل نقصان میں بھی جا رہی ہے اور بکر کی بددیانتی اور بد معاملگی کے باعث مارکیٹ میں کمپنی کی ساکھ بھی خراب ہو رہی ہے، جب زید نے اس بارے میں تحقیق کی تو واقعی یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ ایک ایسا مکمل سیٹ اپ کہ جس کے پاس کام کی کمی بھی نہیں تھی، اس کی حالت دگر گوں تھی۔

کمپنی جن لوگوں سے پیپر، کارڈ، رنگ وغیرہ خرید تی آ رہی تھی ان کے لاکھوں روپے کمپنی کے اوپر واجب الادا تھے اور حد تو یہ کہ کمپنی کرایہ کی جس جگہ پر قائم تھی پورے ایک سال تک اس کا کرایہ بھی ادا نہیں کیا گیا تھا، علاوہ ازیں بجلی کا بل بھی کئی ماہ کا واجب الادا تھا جس کی بناء پر کمپنی کی بجلی بھی منقطع ہونے کی نوبت آگئی تھی۔ کمپنی کے کسٹمر کمپنی سے اتنا بدظن تھے کہ وہ زید کو کہنے لگے تھے کہ ہم بکر کی موجودگی میں آپ کے ساتھ مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے۔ 

زید یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ جب کمپنی میں اتنا کام آرہا ہے تو پھر منافع کی رقم آخر جا کہاں رہی ہے۔ زید کی جانب سے جب کمپنی کے اکاؤنٹس چیک کیے گئے تواس میں کافی بد معاملگی سامنے آئی، کافی کسٹمرز کے حساب میں چھیڑچھاڑ کے ثبوت ملے، نیز بکر جوکہ تنخواہ کے طور پر 1,65,000/=روپے لینے کا حقدار تھا، اس کے نام پر ہر ماہ تین لاکھ روپے تنخواہ کے نام پر موجود پائے گئے۔

شنید یہ بھی ہے کہ کمپنی سے رقم خرد برد کر کے بکر نے اپنے بیٹے کو کراچی کے ایک علاقے میں کھلونے بنانے والی فیکٹری بھی قائم کر کے دی ہے جبکہ اپنا ذاتی پر نٹنگ کا سیٹ اپ بھی کسی جگہ قائم کر لیا ہے (تا حال اب تک اس کی تحقیق نہیں ہوسکی) اب صورت حال یہ ہے کہ کمپنی اس وقت 3 سے چارکروڑ روپے کی مقروض ہے جس کی بڑی وجہ بکر کی بد معاملگی ، بد نیتی اور بد دیانتی لگتی ہے۔

صورت مسئولہ میں پوچھنا یہ ہے کہ اگر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ بکر کی کوتاہی یا بد نیتی کی وجہ سے کمپنی اس حال تک پہنچی ہو تو بھی کیا بکر نقصان میں ذمہ دار نہیں ہو گا (جیسا کہ معروف ہے کہ ورکنگ پارٹنر نقصان کا ذمہ دار نہیں ہوگا)۔ بکر کی بدنیتی، بد دیانتی اور بد معاملگی کے بہت سارے ثبوت اور گواہ موجود ہیں۔ براہِ کرم از روئے شرع اس کا جواب دیجئے۔(معرفت: علامہ ابراراحمد )

جواب: ایسا عقد جس میں ایک فریق کی طرف سے سرمایہ ہو اور دوسرے فریق کی طرف سے محنت اور عمل ہو ، شرعی اصطلاح میں مضاربت کہلاتا ہے۔ بکر صرف ورکنگ پارٹنر ہے ، اُس نے کاروبار میں اپنا مال نہیں لگایا اورزید نے اُسے نفع میں شریک کیاتھا، اصول بھی یہی ہے کہ مضارب نفع میں شریک ہوتا ہے، مال میں شریک نہیں ہوتا، علامہ زین الدین ابن نُجیم حنفی لکھتے ہیں: ’’ (مضاربت کی چھٹی شرط) یہ کہ مُضارب کے لیے نفع میں سے (طے شدہ تناسب سے) حصہ دینا شرط ہو، اگر رأس المال سے کچھ دینا شرط قراردیاگیا یا رأس المال اور نفع دونوں سے دینا شرط قرار دیا گیا ، تویہ مضاربت فاسد ہوجائے گی ،(البحرالرائق ،جلد7،ص:264)‘‘۔

دویا اس سے زائد افراد اگر کسی کاروبار میں شریک ہوں اور ہرایک کے لیے نفع کاتناسب طے کرلیا جائے تواب کوئی ایک فریق اپنے لیے الگ اضافی رقم یا تنخواہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا، اس لیے کہ شراکت داری کی صورت میں اگر کوئی شریک بطورِ اجرت کام کرے تو اس صورت میں شریک کا اجیر ہونا لازم آتا ہے اور کسی ایک معاملے میں بیک وقت شرکت اور اجارہ جمع نہیں ہوسکتے۔ اس لیے فقہائے کرام نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔

البتہ جو شریک مشترکہ کاروبار میں وقت زیادہ دیتاہو یاا س کی محنت زیادہ ہو، تو باہمی رضامندی سے اس کے لیے نفع میں فیصدی تناسب سے مقررکردہ مقدار میں اضافہ کیاجاسکتا ہے۔ بکر نے اپنے لیے ازخود جو مراعات لیں ، اس معاہدے میں اُس کی گنجائش نہیں ، از خود یہ مراعات لینا غبن ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کسی کو ہم کسی کام کے لیے مقرر کریں اور اسے اس کی اجرت ادا کردیں، تو اپنی اجرت کے علاوہ وہ جو کچھ بھی لے گا، وہ غبن کے زمرے میں آئے گا، (سُنن ابو داؤد :2936)‘‘۔

شرعی اُصول و قواعِد کی رُو سے کام کرنے والا اپنی تَعَدّی و کوتاہی سے جو نقصان کرے ،تو وہ اس کا تو ذمّہ دار ہے، آپ کے بقول بکرکی بددیانتی کے شواہد موجود ہیں اور اس بددیانتی کے ذریعے اُس نے اپنے جو اثاثے بنائے ، اُن سے آپ کا نقصان اور مارکیٹ کا قرض اداکرے گا۔ مضاربت میں نقصان کا اصول یہ ہے کہ مُضارِب فقط اپنی کوتاہی سے ہونے والے نقصان کا ذمّہ دار ہوتا ہے۔

امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’مضارب کے ذمہ نقصان کی شرط باطل ہے وہ اپنی تعدِّی و دست درازی و تضییع کے سوا کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں، (فتاویٰ رضویہ ،جلد 19،ص:131)‘‘۔

یعنی اپنی کوتاہی ، دست درازی اور بے جا خرچ کیے جانے سے جو نقصان واقع ہوا، وہ مُضارِب کے ذمے ہے، نیز جب معاہدہ مضاربت کا تھا تو اس میں اجارہ کیسے شامل ہوگیا کہ ایک لاکھ پینسٹھ ہزار روپے اور دیگر مراعات بھی شامل کردی گئیں، جبکہ اصول یہ ہے : عبداللہ بن مسعود ؓبیان کرتے ہیں : ’’ ایک عقد میں دو عقد(جمع کرنا) جائز نہیں ہیں ،(صحیح ابن حبان :5025)‘‘۔

اب اس مسئلے کے حل کا طریقہ یہ ہے: آپ دونوں اس کاروبار سے وابستہ مارکیٹ کے دو ثقہ اور معتبر اشخاص کو ثالث بنائیں ، ایک اکاؤنٹس کا ماہر شامل کرلیں اور آپ کے بیان کے مطابق جتنا نقصان مضارِب کی خیانت یا تَعدّی کی وجہ سے ہوا ہے، وہ آپ کو ادا کرے اور عقدِ مضاربت میں اگر مضارب کی تَعدّی اورخیانت کے بغیر نقصان ہوجائے، تو اس کا بار ربّ المال (Capital Provider) پر ہوتا ہے اور مضارب کی محنت رائیگاں جاتی ہے( واللہ اعلم بالصواب)