• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی (اسٹاف رپورٹر ) میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے ماضی میں کسی میئر نے محاصل وصولی کا نظام بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی،کے ایم سی میں آخری بار 2008 ءمیں زمینوں کی نیلامی ہوئی تھی، ادارے کی آمدنی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اپنے اثاثے کیسے استعمال کرتے ہیں! شہر کی تنزلی اس لئے ہوئی کہ ہم نے اپنے ادارے مستحکم کرنے کے بجائے غیرضروری بھرتیاں کیں،بولٹن مارکیٹ میں 10منزلہ پارکنگ پلازہ کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں، جہاں250 گاڑیاں پارک کرنے کی گنجائش ہوگی، کراچی میں ٹریفک مسائل کے حل کرنے کے لئے 13 منصوبے منظور کرائے ہیں، جن کی تکمیل سے شہریوں کو اندرون شہر آمدورفت میں سہولت ملے گی اور سفری دورانیہ کم ہوگا۔ وہ ہفتے کو یہاں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے صدر دفتر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کررہے تھے۔ میئر کراچی نے کہا کہ 2001 ءمیں متعارف کرائے گئے سٹی حکومت کے نظام کا حوالہ دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اگرچہ سٹی ناظم پاور فل تھا، مگر سٹی حکومت، وفاقی اور صوبائی پیکیج کی محتاج تھی، ادارے کی اپنی آمدنی کے ذرائع بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی گئی، اس وقت شہری ادارے یکجا کرکے سٹی حکومت تو بنا دی گئی تھی، لیکن آج ان شہری اداروں کو یکجا کرنے سے شہری مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید پیچیدگیاں جنم لیں گی، کے ایم سی کے ذمے اس وقت ساڑھے 6ارب روپے قرضہ ہے، جب کہ کے ڈی اے کے قرض کی مالیت بھی کئی ارب ہے، یہی حال دیگر اداروں کا ہے، لہٰذا ہر ادارے کو انفرادی طور پر توجہ دے کر اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا، ہم نے کے ایم سی کا چارج سنبھالنے کے بعد شہر کے وسیع تر مفاد میں اس کے اثاثوں کابہتر استعمال یقینی بنایا اور ان کے ریکارڈ اور وصولی میں شفافیت لائے، بلدیہ عظمیٰ کی 9ہزار دکانوں سے 180 ملین روپے کرایہ آتا تھا، ہماراحدف سوا 3سو ملین ہے، 263 ہٹس ہاکس بے پر واقع ہیں، جہاں سے 16ہزار روپے سالانہ کرایہ ملتا تھا، ہم نے اسے بڑھا کر 3 لاکھ 60 ہزار روپے سالانہ کردیا ہے۔

شہر قائد/ شہر کی آواز سے مزید