• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا محمد قاسم رفیع

ناموسِ رسالت اورعقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ ،فتنۂ قادیانیت کے تعاقب اور تحریکی محاذ کے ساتھ ساتھ علمی میدان میں اس کی تردید کے لئے امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کا جوش و جذبہ دیدنی تھا، جس طرح آپؒ نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کی سرکوبی کے لئے علم و تحقیق کے میدان میں اپنے شاگردوں کو اتارا ،جنہوں نے بلند پایہ علمی و تحقیقی کتابیں لکھ کر اس فتنےکے تارو پود بکھیر دیئے۔ 

ایسے ہی آپؒ نے مجلس احرار اسلام کے قائد علامہ سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری ؒکو محاذ تحفظ ختم نبوت کا سالار مقرر کرکے خود ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور انہیں ’’امیر شریعت‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ امیر شریعت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی قیادت میں ہندوستان میں مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے محاذ سے بے شمار کامیابیاں سمیٹیں اور ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ ء کو جب قادیانیوں کوآئین پاکستان میں غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا، تب حضرت امیر شریعتؒ کی اس جماعت کی قیادت علامہ کشمیریؒ کے تلمیذ رشید اور علمی جانشین محدث العصر علامہ سیّد محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے تھے۔ 

قدرت کا کیا ہی خوب نظام ہے کہ علامہ کشمیریؒ، حضرت امیر شریعتؒ کو جس محاذ ختم نبوت کا امام مقرر کر گئے تھے، جب اس محاذ کے پلیٹ فارم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی قیادت علامہ کشمیریؒ کے جانشین حضرت بنوریؒ نے سنبھالی توتمام مسالک کے علماء کی متفقہ جدو جہد کے نتیجے میں ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کو قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار دیئے گئے۔ 

محدث العصر حضرت بنوریؒ کو تحفظ ختم نبوت کی ذمے داری اپنے استاذ و شیخ علامہ کشمیریؒ سے وارث میں ملی تھی، یہی جذبہ حضرت بنوریؒ کے تلمیذ رشید اور جانشین، خادم سفر وحضر، مزاج شناس و مزاج آشنا،مجاہد ختم نبوت،مہتمم جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرؒ میں منتقل ہوا اور وہ حضرت بنوریؒ کی زندگی ہی میں ان کے مشن تحفظ ختم نبوت سے جڑ گئے۔

مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرؒ کی خدمات ختم نبوت کا جائزہ لیا جائے تو وہ دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہیں: (۱)بیرون ملک خصوصاً عرب دنیا اور یورپ وغیرہ کے اسفار اور قادیانیت سے وہاں کے مسلمانوں کے ایمانوں کو بچانے کے لئے بیانات، (۲)رد قادنیت اور تحفظ ختم نبوت پر اردو میں لکھی گئیں کتابوں کے عربی میں ترجمے کرکے انہیں عرب ممالک میں عام کرنا۔ ہر دو انواع کی خدمات کا سلسلہ حضرت بنوریؒ کے خادمِ سفر ہونے کی حیثیت سے شروع ہوتا ہے۔ 

چنانچہ ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کی تاریخی کامیابی کے بعد جب حضرت بنوریؒ نے افریقی ممالک کا دورہ کیا تو مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرؒ آپؒ کے ہمرکاب تھے اور جہاں بھی حضرت بنوریؒ تحفظ ختم نبوت اور فتنۂ قادیانیت پر اردو میں بیان فرماتے تو ڈاکٹر صاحبؒ اسی مجلس میں ان کا فی البدیہہ عربی میں ترجمہ پیش کرتے، تاکہ اردو سے ناواقف عربی جاننے والے افریقی مسلمان مستفید ہوسکیں۔ 

اپنے ان اسفار کی روئیداد خود ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک مضمون ’’مشرقی افریقا کا سفر‘‘ (مطبوعہ : بینات ، بنوریؒ نمبر ) میں تفصیل کے ساتھ قلم بند کی ہے، جس کے مطابق ممباسا، تنزانیہ دارالسلام، لوساکا اور نیروبی کی مساجد میں ڈاکٹر صاحبؒ نے عربی زبان میں فتنۂ قادیانیت پر حضرت بنوریؒ کے بیانات کا ترجمہ پیش کیا، جس سے حضرت بنوریؒ بہت خوش ہوئے اور حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کو ڈھیروں دعائوں سے نوازا۔ 

نیز ان اسفار میں حضرت بنوریؒ اپنے ساتھ قومی اسمبلی، پاکستان میں قادیانیوں کے جواب میں پیش کیا گیا مسلمانوں کا مؤقف ’’قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا مؤقف‘‘ نامی کتاب ساتھ لے گئے، جس کا اردو سے عربی ترجمہ حضرت بنوریؒ کے حکم پر حضرت ڈاکٹر صاحب نے کیا تھا اور یہ کتاب وہاں عربی دان علماء و عوام کو پیش کی گئی۔ اس سفر میں پیش آنے والا ایک واقعہ حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کے قلم سے قادیانیوں کے لئے درسِ عبرت کے طور پر پیش ہے :ـ

’’نیروبی میں قادیانیوں کی ایک عبادت گاہ ہے ، وہی ان کا مرکز ہے ۔ کینیا کے بعض شہروں میں بھی ان کے مراکز ہیں ، جہاں سے یہ لوگ افریقی عوام میں کام کرتے ہیں اور مقامی زبانوں میں اپنا لٹریچر تقسیم کرتے ہیں۔ بعض دوستوں نے سنایا کہ قادیانیوں کی طرف سے ایک کتابچہ شائع ہوا ، اس کے سرورق پر انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی تصویر بھی چھاپ دی ۔ ایک قادیانی نے جب مرزاغلام احمد کی تصویر دیکھی تو متنفر ہو کر کہنے لگا کہ : یہ پیغمبر کی شکل نہیں ہو سکتی اور قادیانیت سے توبہ کر کے مسلمان ہوگیا ۔‘‘ (ماہ نامہ ــ’’بینات‘‘، حضرت بنوریؒ نمبر، ص:۵۱۷)

حضرت بنوریؒ کے وصال کے بعد جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کے نئے مہتمم اور آپؒ کے داماد مولانا مفتی احمد الرحمن ؒ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر مرکز یہ منتخب ہوئے تو اسی اجلاس( اگست ۱۹۸۱ء) میں مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرؒ کو مجلس کی مرکزی شوریٰ کا رکن منتخب کرلیا گیا۔ 

فروری ۲۰۰۸ء میں نائب امیر مرکزیہ حضرت سیّد نفیس الحسینی ؒ کے انتقال کے بعد امیر مرکزیہ مولانا خواجہ خان محمدؒ نے حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کو نائب امیر مرکزیہ منتخب فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا کہ ختم نبوت کے تحفظ کی امانت جس گھر سے لی تھی، اسی گھر میں واپس لوٹا دی۔ دراصل حضرت بنوریؒ جب مجلس کے امیر مرکزیہ منتخب ہوئے تو انہوں نے حضرت خواجہ صاحبؒ کو نائب امیر بنایا، حضرت خواجہ صاحبؒ نے حضرت بنوریؒ کے مسند نشین و جانشین کو نائب امیر بناکر اپنے استاذ کی امانت کو بحفاظت واپس لوٹا دیا۔ 

اس عرصے میں ڈاکٹر صاحبؒ نے ترجمانِ ختم نبوت شہید ِ اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کے تالیف کردہ رسالے ’’قادیانیوں اور عام کافروں میں فرق‘‘ کا عربی ترجمہ ’’الفرق بین القادیانیین وبین سائرالکفار‘‘ کے نام سے کیا، اس کے علاوہ بھی کئی رسائل کو عربی قالب میں ڈھالا اور عالم عرب میں قادیانی فتنے کو بے نقاب کیا۔ 

نیز آپ ہر سال برمنگھم برطانیہ میں منعقد ہونے والی عالمی ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لے جاتے رہے اور برطانیہ کے مسلمانوں کو اس فتنے سے خبردار کرتے رہے۔ ہمارے قریبی ملک سری لنکا میں نے اپنے پھن پھیلائے اور یہ فتنہ وہاں سر اٹھانے لگا تو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا ایک بھرپور وفد ڈاکٹر صاحبؒ کی قیادت میں مارچ ۲۰۰۷ء میں سری لنکا کے آٹھ روزہ دورے پر گیا، وہاں ڈاکٹر صاحبؒ نے کولمبو، کنیڈی اور دوسرے مقامات پر مساجد و مدارس میں ، وکیلوں اور تاجروں کے درمیان، علماء و طلبہ کے مجمع سے عربی اور اردو زبان میں بیانات فرمائے اور انہیں اس فتنے سے خبردار و بیدار کیا۔ اس دورے کی مفصل کارگزاری وفد میں شامل مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؒ نے سپرد قرطاس کی تھی۔

فروری ۲۰۱۵ء میں مولانا عبدالمجید لدھیانوی ؒکے وصال کے بعد مجلس کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ڈاکٹر صاحبؒ کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا آٹھواں امیر مرکزیہ منتخب کیا۔ آپؒ اس کے لئے بالکل راضی نہیں تھے، مگر حاضرین مجلس کے اصرار پر اس ذمہ داری کو قبول کرنے پر آمادہ ہوئے۔ 

امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ اپنے ایک مضمون میں اس اجلاس کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فرمایا کہ میں بیمار ہوں ، سفر نہیں کر سکتا ، میں یہ ذمہ داری نہیں سنبھال سکتا ، لیکن مولانا خواجہ عزیز احمد نے فرمایا کہ والد صاحبؒ نے آپ کو نائب امیر بناتے وقت فرمایا تھا : ’’ جہاں سے یہ امانت لی تھی ،انہی کے حوالے کر دی ۔ ‘‘ تو حضرت ؒ یہ امانت آپ کے سپرد کر گئے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبؒ رو پڑے اور اپنے شیخ کی امانت کو قبول کر لیا اور ساتھ ہی ایک ایک ممبر سے فرمایا : دعاؤں سے آپ میری مدد کرتے رہیں۔‘‘

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ منتخب ہونے کے بعد آپ نے کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علمائےکرام کو یہ نصیحت فرمائی کہ : ’’ مساجد و مدارس میں اپنے بیانات و دروس کے دوران عقیدئہ ختم نبوت کو ضرور بیان کریں اور اس طرح بیان کریں کہ آپ کے مقتدیوں اور ان کے ذریعے ان کے گھر والوں کو معلوم ہو کہ ختم نبوت کا مسئلہ کیا ہے اور ہمیں کیا عقیدہ رکھنا ہے اور منکرین ختم نبوت کے بارے میں ہمیں کیا سوچنا ہے۔ 

ہمارے اکابر نے اس موضوع پر ہمارے لئے اتنا بڑا علمی ذخیرہ چھوڑا ہے کہ اب ہمارا بس یہ کام ہے کہ اسے پڑھیں اور آگے پہنچادیں اور لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو کریں: ’’کَلِّمُوا النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِہِمْ‘‘ (لوگوں سے ان کی ذہنی صلاحیت کے مطابق گفتگو کرو) پیش نظر رکھیں۔ ‘‘

حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرؒ ۱۹؍ذوالقعدہ ۱۴۴۲ھ مطابق ۳۰؍ جون ۲۰۲۱ء کو رحلت فرمائے عالم آخرت ہوئے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی زندگی کے تابندہ نقوش پر چل کر اپنی منزل تک پہنچائے اور تحفظ ختم نبوت کے لئے انہی کی طرح اپنی صلاحیتیں وقف کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ (آمین)

اقراء سے مزید