دوحہ (اے ایف پی، جنگ نیوز)طالبان کے ایک وفد نے ذبیح اللہ مجاہد کی قیادت میں اتوار کو قطر میں اقوام متحدہ کی زیر قیادت افغانستان پر ہونے والے اجلاس میں شرکت کی ہے، اس اجلاس میں خواتین کو شامل نہیں ہیں۔ طالبان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان وفد نے اجلاس کے موقع پر الگ سے روس، بھارت اور ازبکستان سمیت دیگر ملکوں کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس موقع پرطالبان وفد نے اپنے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی قیادت میں اقوام متحدہ کے حکام اورپہلی بار افغانستان کیلئے مقرر کردہ مختلف ممالک کے خصوصی نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔ یہ گزشتہ ایک برس سے زائد کے عرصے میں اقوام متحدہ کی میزبانی میں قطر میں ہونے والے اپنی نوعیت کے تیسرے مذاکرات ہیں تاہم یہ پہلی بار ہے کہ اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان رہنما بھی ان مذاکرات میں شریک ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اقوام متحدہ کے اجلاس کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں، جن میں یو این نے مختلف ملکوں کے خصوصی ایلچیوں اور طالبان کے نمائندوں کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کیں۔‘ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی قیادت میں طالبان حکومت کے وفد سے اقوام متحدہ کے حکام اور افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے سمیت 20 سے زیادہ ملکوں کے سفیروں کی ملاقات متوقع تھی۔طالبان کو پہلے اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریس نے کہا کہ انہوں نے فروری میں ہونے والے دوسرے اجلاس میں شرکت کے لیے ناقابل قبول شرائط رکھی تھیں، جن میں یہ افغان سول سوسائٹی کے ارکان کو مذاکرات سے باہر رکھنا اور طالبان انتظامیہ کو افغانستان میں جائز حکومت سمجھے جانے کے مطالبات شامل تھے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے ہفتے کے روز دارالحکومت کابل میں صحافیوں کو بتایا کہ وفد ’مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے دوحہ جا رہا ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ہم تمام ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ مشکل وقت میں افغان عوام کو ترک نہ کریں اور افغانستان کی تعمیر نو اور معاشی استحکام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان کے مالیاتی اور بینکنگ نظام پر عائد بین الاقوامی پابندیوں، پرائیویٹ سیکٹر کی ترقی میں درپیش چیلنجز اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف حکومتی اقدامات پر بات چیت کریں گے۔قبل ازیں افغانستان میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ عہدیدار روزا اوتن بائیفا نے دوحہ میں ہونے والے اجلاس میں افغان خواتین کو شامل کرنے میں ناکامی کا دفاع کرتے ہوئے اصرار کیا کہ خواتین کے حقوق کے لیے مطالبات اٹھانا یقینی ہیں۔