لندن (پی اے) 2006میں تعطیلات منانے میرپور آزادکشمیر جانے والے نواز حنیف کو اس وقت پولیس نے، جو ان کے والد کوپڑوسی کے قتل کے الزام میں تلاش کررہی تھی، اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرنے پر مجبور کرنے کیلئے اغوا کرلیا تھا، وہ کم وبیش ایک ہفتہ تک پولیس کی حراست میں رہا تھا، اب اس نے برمنگھم یونیورسٹی میں کرمنالوجی اور پولیسنگ کے لیکچرار کی حیثیت سے فرائض سنبھال لئے ہیں۔ نواز حنیف کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے اغوا نے میرے کیریئر کا تعین کردیا۔ اس نے کہا کہ اب وہ طلبہ کو اپنے تجربات کی بنیاد پر سکھائیں گے کہ پولیس کو کیا نہیں کرنا چاہئے۔ حنیف نواز کا کہنا ہے کہ وہ فیملی کی ایک شادی کی شرکت میں آزادکشمیر گیا ہوا تھا، وہاں اس کے گھر کے باہر ایک پڑوسی کا قتل ہوگیا، اگرچہ اس وقت حنیف نواز کے والد گھر پر نہیں تھے لیکن حکام نے حنیف نواز کے والد پر قاتل ہونے کا شبہ ظاہر اور بے قصور ہونے کے باوجود نہ صرف ان پر بلکہ ان کے چچا اور 2دیگر رشتہ داروں پر بھی قتل کا الزام عائد کردیا تھا جبکہ حقیقت میں پڑوسی کو اس کی اپنی فیملی کے لوگوں نے قتل کیا تھا۔ پڑوس کی فیملی کے ساتھ ایک سابقہ تنازعہ کی وجہ سے حنیف نواز کے والد علاقے کے میئر کے پاس مشورہ کرنے گئے ہوئے تھے کہ ا س تنازعہ کو کیسے طے کرایا جائے، وہیں انھیں فائرنگ کی اطلاع ملی اور انھیں مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے پاس رہیں۔ حنیف نواز کی عمر اس وقت 18 سال تھی، فائرنگ کی آواز سن کر وہ باہر نکلا تو اس نے پڑوسی کی لاش پڑی دیکھی، جسے وہ پہنچانتا بھی نہیں تھا۔ قتل کی وجہ سے لوگوں میں خوف وہراس پھیلاہوا تھا، لوگ رو رہے تھے، مکمل افراتفری کا عالم تھا۔ حنیف نواز کا کہنا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ قتل کس نے کیا، لٹیروں نے یا ڈکیٹوں نے۔ اس نے بتایا کہ اس کے بعد پولیس نے ہمارے گھر پر دھاوا بول دیا اور حنیف نواز کو کھینچ کر باہر لائے، گھر کی تلاشی لی گئی اور حنیف، اس کے کزن کو ایک وین میں بٹھا کر تھانے پہنچا دیا گیا۔ نواز کا کہنا ہے کہ اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ مجھے گرفتار نہیں کیا گیا ہے بلکہ اغوا کیا گیا ہے، ہم نے افسران کے کپڑے تبدیل کرنے کے کمرے میں خوف کے عالم میں رات گزاری۔ 8 دن تک ہمیں تھانے میں رکھا گیا اور ہمارا اپنی فیملی، دوستوں یا وکلا سے کوئی رابطہ نہیں تھا، اس کے بعد افسران نے مجھے بتایا کہ تمہارے والد قتل کے الزام میں مطلوب ہیں جب تک وہ نہیں آجاتے تم کہیں نہیں جاسکتے، مجھے یاد ہے کہ میں رونے لگا، میں پھوٹ پڑا، میں نے صرف یہ کہا کہ میرے والد نے یہ قتل نہیں کیا۔ وہ بہت ہی شرمیلے انسان ہیں، اگر کوئی ان کے منہ پر مکہ بھی مار دے تو بھی وہ کسی کو تھپڑ بھی نہیں مار سکتے۔ یہ الزام سمجھ سے بالاتر ہے، بعد میں ہمیں ایک کوٹھری میں منتقل کردیا گیا، جہاں پہلے ہی بہت زیادہ لوگ موجود تھے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں دیکھا کہ لوگوں کو ان کی کوٹھری سے کھینچ کر لے جایا جاتا تھا اور ان پر ایسے کاموں کا اعتراف کرانے کیلئے تشدد کیا جاتا تھا، جو انھوں نے نہیں کئے ہوتے تھے۔ لوگوں کی چیخ وپکار کی آوازیں آتی رہتی تھیں اور ہم ان ہی کے درمیان سونے کی کوشش کرتے تھے۔ ایک شخص کو ہماری کوٹھری کے دروازے سے باندھ دیا گیا تھا، وہ لنگڑا تھا اور بیہوش تھا، اس کے ہاتھ پیلے پڑچکے تھے، میں نے اندازہ لگایا کہ اسے باندھ کر یہاں چھوڑ دیا گیا ہے، جب بھی دروازہ کھلتا تھا، میں خوفزدہ ہوجاتا تھا۔ حنیف نواز کا والد محمد بعد میں تھانے میں پیش ہوگیا تاکہ اس کے بیٹے کو رہائی مل سکے، جب انھیں دو دیگر رشتہ داروں کے ساتھ حراست میں لے لیا گیا تو حنیف نواز کی والدہ اور چھوٹے بچوں کو زبردستی ان کے گھر سے نکال دیا گیا، جس کے بعد گھر لوٹ لیا گیا اور گھر آج تک خالی پڑا ہے۔ حنیف نواز کے والد محمد نے میرپور سینٹرل جیل میں قید کے دوران اخبارات کیلئے لکھنا شروع کیا اور ان کی فیملی نے انھیں رہا کرانے کیلئے ڈائوننگ اسٹریٹ، ارکان پارلیمنٹ یہاں تک کہ بکنگھم پیلس سے بھی رابطہ کیا۔ حنیف نواز نے بتایا کہ اس دوران ان کے والد نے بہت صبر کا مظاہرہ کیا، جب بھی انھیں ان سے فون پر بات کرنے کا موقع ملتا تھا، وہ یہی کہتے تھے کہ فکر نہ کرو، سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ 4 سال ریمانڈ پر رہنے کے بعد بالآخر 2010 میں ایک جج نے انھیں اور ان کے ساتھی ملزموں کو بے قصور قرار دے دیا، جس پر وہ رہا ہوگئے۔ حنیف نواز کا کہنا ہے کہ جو شخص قتل کیا گیا تھا، اسے اس کی اپنی فیملی کے کسی فرد نے زمین کے تنازعہ پر قتل کیا تھا۔ حنیف نواز انگلینڈ واپس آیا اور اس نے لیگل چیرٹی Reprieve میں تفتیش کار کی حیثیت سے شمولیت اختیار کرلی، جہاں سے وہ بیرون ملک موت کی سزا کا سامنا کرنے والے دوسرے شہریوں کی مدد کرتا ہے۔ وہ بعد میں ویسٹ مڈلینڈز پولیس میں شامل ہوگیا، جہاں اس نے پولیس کے مس کنڈکٹ اور کرپشن کی تفتیش کیلئے قائم پروفیشنل اسٹینڈرڈ ڈپارٹمنٹ میں کم وبیش 10 سال گزارے۔ اسٹیفورڈ یونیورسٹی کے پولیس کانسٹیبل ڈگری اپرنٹس شپ پروگرام میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد اس نے اپریل میں BCU میں لیکچرار کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ یونیورسٹی کے بزنس، لا اور سوشل سائنسز کے شعبے کی ڈین سارہ ووڈ کا کہنا ہے کہ وہ انھیں اس حیثیت میں دیکھ کر بہت خوش ہیں، وہ اپنے ساتھ اپنا ذاتی تجربہ بھی لائے ہیں کہ فیملی معاملات میں خود انھوں نے اپنی زندگی میں کن حالات کا سامنا کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حنیف نواز کا BCU سے وابستہ ہو کر اگلی نسل کو اپنے تجربات سے آگاہ کرنا ایسے ہی جیسے وہ "full circle." میں آگئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چند بڑے اسکینڈلز کے باوجود انگلینڈ اور ویلز میں پولیسنگ کا مستقبل روشن ہے۔ انھوں نے کہا کہ راستے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں لیکن میں سمجھتی ہوں کہ پولیس کو پہلے جیسے مقام پر واپس لے جانے کا موقع موجود ہے۔