• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہودی اپنے کیلنڈر کے ہوتے ہوئے عاشورہ کا روزہ کس طرح رکھتے تھے؟

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

(گزشتہ سے پیوستہ)

نبی اکرمﷺ نے فرمایا: (ہم موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تم سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں) اس طرح اس دن کی تعظیم اور یومِ نجاتِ موسیٰ ؑ کی تعیین کے لیے نبی ﷺ کی طرف سے پہلا حکم صادر ہوا، جب کہ یہودیوں نے اس دن کی تعیین میں غلطی کی، کیوں کہ یہ دن شمسی ایام کے اعتبار سے ہر سال بدلتا رہتا ہے، بالکل اسی طرح عیسائیوں نے بھی اپنے روزوں کی تعیین کے لیے غلطی کی اور اسے سال کے کسی خاص موسم کے ساتھ مختص کر دیا‘‘۔(زاد المعاد فی ھدی خير العباد 2/69)

لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس توجیہ کو احتمال کے ساتھ ذکر کیا، اور پھر اس کا رد بھی کیا، اور ابن قیم کی ترجیح کو مسترد کر دیا، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’کچھ متاخرین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہودی شمسی مہینوں کے اعتبار سے روزے رکھتے تھے، چنانچہ ربیع الاول کے مہینے میں نجاتِ موسیٰ کا دن آنا ممکن ہے، تو اس طرح کوئی بھی اشکال باقی نہیں رہ جاتا، ابن قیم نے زاد المعاد میں اسی کو ثابت کیا ہے کہ اہلِ کتاب شمسی اعتبار سے روزے رکھتے تھے۔

میں( ابن حجر) کہتا ہوں کہ ابنِ قیم رحمہ اللہ کی طرف سے تمام اشکال ختم ہو جانے کا دعویٰ تعجب خیز ہے، کیوں کہ اس سے ایک اور اشکال پیدا ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ نبی ﷺ نے مسلمانوں کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، اور شروع سے اب تک مسلمانوں میں یہ بات معروف ہے کہ یہ روزہ صرف محرم میں آتا ہے، کسی اور مہینے میں نہیں آتا۔

طبرانی میں زید بن ثابتؓ سے جید سند کے ساتھ ایک اثر ملا ہے اس میں ہے کہ: ’’عاشوراء کا دن وہ دن نہیں ہے جو عام لوگوں میں مشہور ہے، بلکہ اس دن میں کعبہ کا غلاف چڑھایا جاتا، اور حبشہ کے لوگ اس دن جنگی آلات کے ذریعے کھیل کود کرتے تھے، اور یہ پورے سال میں کسی بھی دن آیا کرتا تھا، اور لوگ فلاں یہودی کے پاس (اس دن کی بابت )پوچھنے کے لیے آیا کرتے تھے، جب وہ مر گیا تو پھر لوگ زید بن ثابت ؓکے پاس آ کر پوچھنے لگے۔‘‘

تو اس اثر کے مطابق تطبیق کی صورت یہ ہے کہ: اصل میں بات ایسے ہی ہے، لیکن جب نبی ﷺ نے عاشوراء کے روزے کا حکم دیا تو لوگوں کو اصل شرعی حکم کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا اور وہ ہے قمری مہینوں کا اعتبار، تو مسلمانوں نے اسی کو اپنایا۔ لیکن ابن قیم رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ اہل کتاب اپنے روزوں کے لیے شمسی مہینوں کا اعتبار کرتے تھے، یہ قابلِ تردید بات ہے، کیوں کہ یہودی بھی اپنے روزوں کے لیے چاند ہی کا اعتبار کرتے ہیں، اور ہمارا یہودیوں کے بارے میں مشاہدہ بھی یہی ہے، اس لیے اس بات کا قوی احتمال ہے کہ کچھ یہودی شمسی مہینوں کا اعتبار کرتے ہوں، لیکن اِن یہودیوں کا آج کوئی وجود نہیں ہے، جس طرح عزیر علیہ السلام کو (نعوذ باللہ)اللہ کا بیٹا کہنے والوں کا کوئی وجود نہیں ہے‘‘ ۔ (فتح الباری)