کراچی( ثاقب صغیر /اسٹاف رپورٹر )شہر کے پوش علاقوں میں اسلحے کی نمائش اور بڑے ہتھیاروں کی نمائش معمول بن گئی ہے۔شہر میں اسلحے کی نمائش پر پاپندی کے باوجود شہر کی سڑکوں پر مسلح سیکورٹی اور نجی گارڈز کھلے عام بڑے ہتھیار لے کر آئے روز سڑکوں پر چلتے نظر آتے ہیں۔پوش علاقوں میں بڑی گاڑیاں رکھنے کیساتھ زیادہ سے زیادہ گارڈز اور محافظ رکھنا بھی ایک ٹرینڈ بن چکا ہے،مالدار افراد کے بگڑے ہوئے بچوں کے درمیان آئے روز چھوٹی چھوٹی باتوں پر تکرار ہوتی ہے اور اپنے اپنے محافظین کے ساتھ بڑے ہتھیاروں کی نمائش کی جاتی ہے۔قانون کے مطابق کوئی بھی ہتھیار خریدنے کے بعد اسکی انٹری مقامی تھانے میں ہونا ضروری ہے لیکن پولیس کے پاس اسلحہ رکھنے والے بیشتر افراد کی کوئی انٹری تھانوں میں موجود نہیں ہے جبکہ کسی دوسرے صوبے کا لائسنس ہونے پر بھی مقامی پولیس کو اس اسلحے کی اطلاع دینا ضروری ہے تاہم ایسا کوئی ریکارڈ پولیس کے پاس موجود نہیں ہے۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سرداروں اور افسران کی فیملیز کی بڑی تعداد ڈیفنس میں رہتی ہے جبکہ گرمیوں کی چھٹیوں میں بلوچستان سے بڑی تعداد ان افراد کی کراچی آتی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ اگر کسی کے پاس لائسنس ہے تو وہ اسلحہ رکھ سکتا ہے ،اگر وہ اس اسلحے کا ناجائز استعمال کرتا ہے تو پولیس اس کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔ بلوچستان سے اکثر بڑی گاڑیاں بھی پوش علاقوں میں لائی جاتی ہیں اور ان میں جعلی نمبر پلیٹ لگی گاڑیاں بھی ہوتی ہیں جنھیں تلاش کرنا پولیس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ڈیفنس واقعہ میں استعمال ہونے والی دونوں گاڑیوں پر نمبر پلیٹ جعلی تھی ۔عام طور پر بلوچستان اور مضافاتی علاقوں میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال کی جاتی ہیں اور ان گاڑیوں پر جالی نمبر پلیٹ استعمال کی جاتی ہیں۔واقعہ میں بڑے ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا گیا ہے جو پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔پولیس کی جانب سے اسلحے کی نمائش اور جعلی نمبر پلیٹس کے خلاف مختلف مہمیں چلائی جاتی ہیں جو صرف باتوں تک ہی محدود ہیں۔