کراچی میں تحفظ شدہ مینگرووز ختم ہونے کے دہانے پر آ گئے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمر کا خاتمہ زمین پر قبضے، رہائشی اسکیموں، ترقیاتی، کمرشل اور تفریحی منصوبوں کے سبب کیا گیا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی میں ایک دہائی سے زائد کے دوران تمر کے جنگلات کا بے رحمی سے صفایا کر دیا گیا، تمر کے جنگلات کے بڑے رقبے کو رہائشی اور ترقیاتی منصوبوں میں تبدیل کر دیا گیا، 2010 تا 2022 کراچی کی ساحلی پٹی پر تقریباً 200 ہیکٹر مینگرووز جنگلات کا صفایا ہوا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رہائشی منصوبوں کے لیے یونس آباد، کاکاپور گاؤں، حاجی علی گوٹھ، ماڑی پور، شمشیر جزیرے، کیماڑی، مچھر کالونی اور بھٹہ کالونی میں تمر کے جنگلات کاٹے گئے۔
کریک انڈسڑیل پارک کورنگی، لکی الیکٹرک کمپنی، ایس ایس جی سی ایل پی جی ٹرمینل، ایپیکسل ٹرمینل، پورٹ قاسم پاور پلانٹ، اے ایس جی میٹلز کے قریب کے علاقوں سے بھی تمر کا خاتمہ کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمرشل اور تفریحی منصوبوں کے لیے ڈی ایچ اے، ایئرمین گالف کلب، تفریحی پارک کے قریب تمر کا صفایا ہوا، حفاظتی اقدامات اور قوانین پر فوری عملدر آمد نہ ہونے سے باقی ماندہ مینگرووز بھی ختم ہو سکتے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے برعکس انڈس ڈیلٹا میں مینگرووز کے جنگلات کا رقبہ بڑھا ہے، محکمۂ جنگلی حیات سندھ نے 2020 تا 2024 ساحلی پٹی کے ساتھ 55 ہزار 555 ہیکٹر رقبے پر تمر لگائے۔
شجر کاری مہم کے باوجود کراچی میں مینگرووز کو بڑے خطرات کا سامنا ہے، ماحولیاتی نظام میں ساحلی علاقوں میں مینگرووز اہم کردار ادا کرتے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے منفی اثرات کو کم کرنے میں مینگرووز مدد کرتے ہیں۔