ڈاکٹر نعمان نعیم
موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس کا انکار کوئی ذی شعور نہیں کر سکتا۔ ہر انسان دنیا کی زندگی گزارنے کےلیے کوئی نہ کوئی کاوش اور جد و جہد کرکے مال و اسباب اکٹھا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بعد از مرگ اس کے زیر ملکیت منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کو کس طرح تقسیم کیا جائے؟ اسلام وہ دین ہے جس نے سب سے پہلے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی وراثت میں حق دار ٹھہرایا۔ حالانکہ اس وقت کے جزیرۃ العرب کے معروضی حالات عورتوں کے حوالے سے فرسودہ نظریات کے حامل تھے۔ بچیوں کو زندہ درگور کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔
ایسے ماحول میں اسلام کے متوازی نظام اقتصاد کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کو مالی تحفظ دیا گیا۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن بیٹی اور بیوی کے طور پر وہ مثالی حقوق عطا کیے جن کی مثال کسی تہذیب و مذہب میں نہیں ، لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشروں میں ہماری بہن بیٹی عملا ًان حقوق سے محروم ہے، جن کا بیان قرآن کی آیات اور نبی اکرمﷺ کے ارشادات میں موجود ہے۔
اسلام عورت کو وراثت کا حقدار بتاتا ہے جب کہ معاشرہ جبر کر کے ان کے حقوق کو سلب کر رہا ہے۔آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین کی اکثریت کو ان کے حق کے مطابق وراثت میں حصہ نہیں ملتا۔ وہ لوگ جو بے خیالی میں یا جان بوجھ کر عورت کو حقِ وراثت سے محروم کر کے حرام مال کی جانب جا رہے ہیں، انہیں اس گناہ سے بچنا چاہیے۔
دورِ جاہلیت میں اہل عرب مختلف قبیلوں اور طبقوں میں بٹے ہوئے تھے۔ وراثت میں ان کے ہاں چھوٹے بچوں اور عورتوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ حضور اکرمﷺ کی بعثت سے جہاں شرک وکفرکا خاتمہ ہوا اور دیگر تمام باطل رسموں کی اصلاح ہوئی، وہیں یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق و میراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکامات نازل ہوئے۔ ،دنیائے انسانیت جاہلی تہذیب سے نکل کر اسلام کے پاکیزہ معاشرت میں زندگی گزارنے لگی۔
بعض حضرات اپنی زندگی ہی میں اپنا مال وجائیداد اولاد و اقربا میں تقسیم کر دیتے ہیں ،عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف بیٹوں کو حصہ دیاجاتا ہے اور بیٹیوں اور بیوی کو محروم کردیا جاتا ہے، جب کہ بعض بیٹیوں کو مختلف لالچ دے کر حصہ سے محروم رکھتے ہیں ، ان لوگوں کو حالت صحت میں اگرچہ مال میں تصرف کامکمل اختیار ہے، لیکن یاد رہے ان کا یہ عمل اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
چنانچہ امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ نے حضرت جابر ؓ سے روایت نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺاور حضرت ابوبکر صدیق ؓبنوسلمہ میں میری عیادت کے لیے تشریف لائے ،مجھ پر بے ہوشی طاری تھی، آپﷺ نے پانی منگوایا ،وضو فرمایااور کچھ چھینٹے مجھ پر مارے، مجھے کچھ افاقہ ہوا، میں نے پوچھاکہ میں اپنی اولاد کے درمیان اپنا مال کیسے تقسیم کروں ؟اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ”یُوْصِیْکُمُ اللہُ فِی أوْلَادِکُمْ “(صحیح بخاری ،کتاب الجمعہ ،رقم:۴۵۷۷،صحیح مسلم،کتاب الفرائض، باب: میراث الکلالۃ، رقم:۴۲۳۱، سنن ترمذی ، کتاب الفرائض، باب: میراث البنین مع البنات ،رقم:۲۰۹۶)
اس آیت میں والدین کو حکم دیا گیا ہے کہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو بھی مال میں سے حصہ دو۔ مشکوٰۃ شریف کی ایک صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے کہ بعض لوگ تمام عمر اطاعتِ خد اوندی میں مشغول رہتے ہیں، لیکن موت کے وقت وارثوں کو ضرر پہنچاتے ہیں یعنی کسی شرعی عذر اور وجہ کے بغیر کسی حیلے سے یا تو حق داروں کا حصہ کم کر دیتے ہیں، یا مکمل حصے سے محروم کر دیتے ہیں ،ایسے شخص کواللہ تعالیٰ سیدھے جہنم میں پہنچا دیتا ہے۔
غورفرمائیں !میراث کے بارے میں اللہ کے ایک حکم کے سلسلے میں حیلے بہانوں سے کام لینے والوں کی تمام عمر کی عبادتیں ،نماز ،روزہ ،حج ،زکوٰۃ، تبلیغ اور دیگر اعما ل ضائع ہونے کاقوی اندیشہ ہوتاہے، بلکہ ایسے شخص کے بارے میں جہنم کی سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے۔ سنن سعید بن منصور کی روایت میں حضورﷺ کا ارشاد گرامی ان الفاظ میں مروی ہے :”مَنْ قَطَعَ مِیْرَاثاً فَرَضَہ اللہُ قَطَعَ اللہُ مِیْرَاثَہ مِنَ الْجَنَّةِ“(رقم:۲۵۸) یعنی جو شخص اپنے مال میں سے اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ میراث کو ختم کردیتا ہے، اللہ تعالیٰ جنت سے اس کی میراث ختم فرما دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس ارشادپر غور فرمائیں ”لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ“ یعنی لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابرحصہ ملے گا،اللہ تبارک وتعالیٰ نے:” لِلْأنْثَیَیْنِ مِثْلُ حَظِّ الذَّکَرْ“ نہیں فرمایا کہ دو لڑکیوں کو ایک لڑکے جتنا حصہ ملے گا،علامہ آلوسی ؒ نے روح المعانی میں لکھاہے کہ اللہ تعالیٰ نے للذکر مثل حظ الانثیین فرمایا ،اس کی وجہ یہ ہے اہل عرب صرف لڑکوں کو حصہ دیا کرتے تھے، لڑکیوں کو نہیں دیتے تھے،ان کی اس عادت سیئہ پر رد اور لڑکیوں کے معاملے میں اہتمام کے لیے فرمایا کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابرحصہ ملے گا،گویا یہ فرمایا کہ صرف لڑکوں کو حصہ دیتے ہو ،ہم نے ان کاحصہ دگنا کر دیا ہے، لڑکیوں کے مقابلے میں، لیکن لڑکیوں کو بھی حصہ دینا ہوگا،ان کو میراث سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
امام قرطبی ؒ ’’احکام ا لقرآن“ میں اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں : ارکان دین میں سے ہے اور دین کے اہم ستونوں میں سے ہے اور امہات آیات میں سے ہے؛ اس لیے کہ فرائض(میراث)کا بہت عظیم مرتبہ ہے، یہاں تک کہ یہ ثلث علم ہے۔ اس آیت کریمہ میں میراث کے احکام بیان فرمانے کے بعد، اس کے اخیر میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا تِلْکَ حُدُوْدُ اللہِ یہ میراث کے احکام اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ حدود ہیں، ان حدود پر عمل کرنے والوں کے لیے بطور انعام وجزا کے فرمایا :﴿ترجمہ:جو اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے ایسی جنت میں داخل فرمائے گا، جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
میراث کے سلسلے میں اللہ کے بیان کردہ احکامات پر عمل نہ کرنے والوں کے لیے آگ اور ذلّت کاعذاب ہوگا، ارشاد ربانی ہے : ﴿ ترجمہ:جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کے بیان کردہ حدود سے تجاوز کرتاہے، اللہ تعالیٰ اسے آگ میں داخل فرما دے گا، جہاں وہ ہمیشہ رہے گااور اس کے لیے ذلت آمیز عذاب ہوگا۔
بیٹوں کو حصہ دے کر بیٹیوں کومحروم کرنا، یا بھائی اور چچا وغیرہ کا خود لے کر عورتو ں کو محروم کرنا، یہ زمانہٴ جاہلیت کے کفار کاطرزعمل ہے ، اللہ تعالیٰ کے واضح اور صریح حکم کو پسِ پشت ڈا ل کر ایک کافرانہ رسم پر عمل کرنا کوئی معمولی خطانہیں ہے، نہایت سرکشی اور اعلی درجے کاجرم ہے،بلکہ کفر تک پہنچ جانے کا اندیشہ ہے۔
اپنی اولاد اور ورثاء کے لیے مال چھوڑنا بھی ثواب کا کام ہے، امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں نقل کیاہے: حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں کہ میں فتحِ مکہ والے سال ایسا بیما ر ہو ا کہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا ابھی موت آنے والی ہے، رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے ،تو میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے پاس بہت سامال ہے ،میری صرف ایک ہی بیٹی کو میراث کاحصہ پہنچتا ہے ،تو کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کردوں ؟آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا : آدھے مال کی وصیت کردوں ؟ آپ ﷺنے فرمایا :نہیں، میں نے عرض کیا:تہائی ما ل کی وصیت کردوں ؟ آپ ﷺنے فرمایا: تہا ئی کی وصیت کر سکتے ہو اور تہائی بھی بہت ہے ،پھر فرمایا :تم اپنے ورثاء کومال داری کی حالت میں چھوڑ جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں تنگدستی کی حالت میں چھوڑدو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں (صحیح بخاری،کتاب الجمعہ، رقم:۲۷۴۲)۔
حضرت سعد بن الربیع ؓ شہید ہوگئے ، ان کی بیوی، دو لڑکیاں زندہ تھیں ، بھائی نے ترکہ پر قبضہ کرلیا، اب بیوی بہت پریشان ہوئیں، دونوں بچیوں کے گزر بسر اور شادی بیاہ کا مسئلہ سامنے تھا، چنانچہ ان کی بیوی رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچیں اور پورا قصہ سنایا، اس پر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ارجعي فَلَعَلَّ اللّٰہَ سَیَقضِي فیہ‘‘ ابھی واپس جائو اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ اس سلسلے میں فیصلہ فرمائیں چنانچہ کچھ دنوں بعد وہ پھر دوبارہ واپس آئیں اور رونے لگیں ، ان کی آہ آسمانوں کو پار کرکے عرش تک پہنچ گئی اور آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺنے یتیم بچیوں کے چچا کو بلایا اور حکم فرمایا کہ مرحوم کی دونوں بچیوں کو دوتہائی اور بیوہ کو آٹھواں حصہ دے دو اور جو بچے وہ تیرا ہے۔ یہ میراث کی پہلی آیت ہے جو ایک مظلوم عورت کی دادرسی اور فریاد رسی کے لیے نازل ہوئی۔ (تفسیرکبیر، نسائی)
میّت کے مرنے کے بعد اس کے ترکے میں جیسے نرینہ رشتہ دار اپنے شرعی مقرر شدہ حصوں کے تناسب سے حق دار ہوتے ہیں، ایسے ہی خواتین بھی یعنی والدہ، بیوہ، بیٹی، بہن اپنے شرعی مقرر شدہ حصوں اور میراث کے اصولوں کے تناسب سے حق دار ہوتی ہیں، اور کسی بھی خاتون کے میت کی میراث میں حق دار ہونے کی صورت میں انہیں ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا اور نرینہ رشتہ داروں کا قبضہ کرلینا ناجائز اور گناہ ِ کبیرہ ہے، میراث میں کسی بھی حق دار کو اس کا حق اور حصہ اس دنیا میں دینا لازم اور ضروری ہے، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا۔
حضرت سعید بن زید ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پرڈالی جائے گی۔(مشکوٰۃ المصابيح) حضرت انس ؓ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔(باب الوصایا، الفصل الثالث)
والدین کے ترکہ میں نرینہ اولاد کی طرح بیٹیوں کا بھی شرعی حق اور حصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بیٹوں کا قبضہ کرلینا اور بہنوں کو ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور گناہ ِ کبیرہ ہے، بہنوں کو ان کا حق اور حصہ اس دنیا میں دینا لازم اور ضروری ہے۔ لہٰذامیراث میں سے عورتوں کا حصہ دینا لازم اور ضروری ہے، بہنوں کو میراث سے محروم کرنا یا ان کے حق سے کم دینا ظلم اور ناجائز ہے۔ جو بھائی اپنی بہنوں کے حصے پر قابض ہوکر ان کا مال کھاتے ہیں متروکہ جائیداد یا اس کے منافع میں سے ان کے لیے اپنے حصے سے زائد لینا حرام ہے۔
یتیموں، عورتوں اور بیٹیوں کو میراث اور جائیداد میں حصے سے محروم کرنا بہت بڑا جرم ہے اور گناہ ہے ،قانون خداوندی سے بغاوت کے مترادف ہے، اس بارے میں کسی قسم کے حیلوں اور بہانوں کا سہارا نہ لیا جائے؛ بلکہ جوشرعی حصہ داروں کا حق بنتا ہے، وہ ان کے سپرد کر دیا جائے ،ہاں! اگر اپنے حصہ پر قبضہ کرنے کے بعدوہ اپنی رضا ورغبت سے کچھ ،یا سارا کسی کو دینا چاہے تو اس کے لیے لینا جائز ہوگا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور میراث کے حوالے سے پائی جانے والی غفلتو ں کے ازالے کی ہمت عطا فرمائے ،امت مسلمہ کی تمام پریشانیوں اور مشکلات کو آسانیوں اور عافیت میں بدل دے۔(آمین)