آپ کے مسائل اور اُن کا حل
مذکورہ واقعہ حضرت عثمانؓ کے دور خلافت کا ہے،حضرت عثمان بن حنیف ؓ اس دور میں ایک شخص کو یہ دعا سکھا کر نبی اکرم ﷺ کی ذات کا توسّل سکھارہے ہیں، اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ جس طرح حضور ﷺ کے توسّل سے دعا کرنا حیات میں جائز تھا، بالکل اسی طرح آپﷺ کی وفات کے بعد بھی آپﷺ کے توسل سے دعا ما نگنا جائز ہے۔’’مقالات الکوثری‘‘ میں حضرت علامہ شیخ زاہد بن حسن الکوثری رحمہ اللہ اُس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صحابی کے اس قول کا کہ ’’ کنا نفعل کذا‘‘مطلب یہ ہے کہ یہ فعل اس قول کے وقت سے پہلے والے زمانے میں ہوتا رہا ہے، لہٰذا حضرت عمر ؓکے اس قول ’’إنا كنا نتوسّل‘‘ کا مطلب یہ ہوگا کہ صحابہؓ حضور ﷺ کا توسل آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں اور آپ ﷺ کے اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانے کے بعد سے لے کر قحط والے سال تک کرتے رہے ہیں،اس توسل کو حضور ﷺ کی وفات سے قبل والے زمانے کے ساتھ خاص کرنا خواہشات کی پیروی، نصوص میں تحریف اور تاویل بلادلیل ہے۔ (محق التقول فی مسالۃ التوسل، 340، ط: المکتبۃ التوفیقیۃ ،مصر)
لہٰذا مندرجہ بالا روایات سے آپﷺ کی حیات پاک میں بھی اور وفات کے بعد بھی آپ ﷺ کے وسیلے سے دعا کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ باقی رہا یہ اشکال کہ حضرت عمر ؓ نے حضور اکرم ﷺ کی بجائے حضرت عباس ؓ کے وسیلے سے کیوں دعا کی ؟ سو اس کی چار توجیہات فقیہ العصر حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی نے ذکر فرمائی ہیں:1.حضرت عباس ؓسے توسّل کے ساتھ آپ کی دعا بھی مقصود تھی ۔2.اس پر تنبیہ مقصود تھی کہ توسل بالنبی ﷺ کی دو صورتیں ہیں: ایک توسل بذاتہ، دوسری توسل باہل قرابتہ ﷺ۔3.یہ بتانا مقصود تھا کہ توسل بغیر الا نبیاء علیہم السلام من الاولیاء والصلحاء بھی باعثِ برکت و جالبِ رحمت ہے ۔4.طبع انسانی اپنے اندر موجود محسوس مبصر شخص پر زیادہ مطمئن ہوتی ہے ، چنانچہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں سلام بھیجنے اور دعا کی درخواست پہنچانے میں انسانی وسائط کا اہتمام کیا جاتا ہے، حالانکہ ملائکہ کا واسطہ انتہائی سریع ہونے کے ساتھ انتہائی قوی بھی ہے، نہ ادائے امانت میں غفلت کا خطرہ نہ نسیان کا اندیشہ۔(کتاب الایمان والعقائد، 335/1،ط: سعید)
صحیح بخاری میں حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ لوگ جب قحط میں مبتلا ہوتے تو حضرت عمرؓ ،حضرت عباسؓ کے وسیلے سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ، ہم تیرے پاس تیرے نبیﷺ کا وسیلہ لے کر آیا کرتے تھے تو ہمیں سیراب کرتا تھا، اب ہم لوگ اپنے نبی کے چچا عباس ؓ کا وسیلہ لے کر آئے ہیں، ہمیں سیراب فرما، راوی کہتے ہیں کہ لوگ سیراب کیے جاتے۔ (کتاب فضائل الصحابۃ، باب ذکر عباس بن عبد المطلب،1360/3، ط: دار ابن کثير)
علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ "امداد الاحکام "میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئےفرماتے ہیں:"حضرات صحابہ کا بعد وصال نبوی علیہ الصلوٰۃ و السلام الیٰ یوم القیام کے حضرت عباس ؓ سے استسقاء میں توسل کرنا ہر گز اس امر پر دال نہیں کہ بعد وصال کے حضورﷺ سے توسّل فی الدعا ممنوع ہو گیا تھا، اگر کسی کو دعویٰ ہے تو دلالۃ النص وعبارۃ النص يا اشارۃ النص و اقتضاء النص کے طریق سے کسی طریقےسے ثابت کرے کہ یہ حدیث اس امر پر کیوں کر دال ہے۔" ( کتاب الایمان، 133/1، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)