ڈھاکا (اے ایف پی) بنگلہ دیشی طلباء رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ ملک گیر سول نافرمانی کی منصوبہ بندی کی مہم جاری رکھیں گے جب تک کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ گزشتہ ماہ مظاہرین کے خلاف پولیس کے مہلک کریک ڈاؤن پر مستعفی نہیں ہو جاتیں۔ سول سروس کی ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف ریلیوں نے جولائی میں تباہی مچادی جس میں حسینہ کے 15 سالہ دور کی بدترین بدامنی میں 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ فوجیوں کی تعیناتی نے مختصر طور پر نظم و نسق بحال کر دیا لیکن اتوار کو شروع ہونے والی حکومت کو مفلوج کرنے کے لیے ایک ہمہ گیر عدم تعاون کی تحریک سے قبل ہجوم اس ہفتے بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آیا۔ اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمنیشن، ابتدائی احتجاج کو منظم کرنے کا ذمہ دار گروپ، نے پہلے دن میں حسینہ کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اعلان کیا کہ ان کی مہم وزیراعظم اور ان کی حکومت کے مستعفی ہونے تک جاری رہے گی۔ گروپ کی رہنما ناہید اسلام نے دارالحکومت ڈھاکہ میں قومی ہیروز کی یادگار پر ہزاروں کے ہجوم سے کہا کہ انہیں مستعفی ہوکر مقدمے کا سامنا کرنا ہوگا۔ اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمنیشن نے اپنے ہم وطنوں سے کہا کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اتوار سے ٹیکس اور یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی بند کر دیں۔ انہوں نے ملک کی معاشی طور پر اہم گارمنٹس فیکٹریوں میں سرکاری کارکنوں اور مزدوروں سے بھی ہڑتال کرنے کا مطالبہ کیا۔ ہفتے کے روز ڈھاکہ کے ارد گرد ہونے والے بہت سے مظاہروں میں سے ایک میں سے 20 سالہ نجم یاسمین نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں جانا ہوگا کیونکہ ہمیں اس آمرانہ حکومت کی ضرورت نہیں۔ کیا ہم نے اپنے بہن بھائیوں کو اس حکومت کی گولیوں کا نشانہ بنانے کے لیے ملک کو آزاد کروایا تھا؟ الینوائے اسٹیٹ یونیورسٹی کے سیاست کے پروفیسر علی ریاض نے اے ایف پی کو بتایا کہ اب پانسہ پلٹ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی بنیاد ہل گئی ہے، ناقابل تسخیر ہونے کی چمک ختم ہو گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ حسینہ پیچھے ہٹنے کو یا آخری دم تک لڑنے کے لیے تیار ہے؟