• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
اے میرے ارض وطن تیرے صحن کی چھائوں میں ہر رنگ و نسل کا قبیلہ پروان چڑھے۔ یہ طے ہوا تھا، ہر اکثریت و اقلیت کو یکساں مقام حاصل ہوگا یہ بھی طے ہوا تھا، امن کا گہوارہ ہوگا یہ ملک سبھی کیلئے، یہ بھی طے ہوا تھا کوئی کسی پر برتری حاصل نہ کرے گا یہ بھی طے ہوا تھا کوئی کسی پر ظلم و ستم نہ کرے گا، یہ بھی طے ہوا تھا فرقہ واریت ، عقیدہ و مسلک پر کوئی جنگ وفساد نہ ہوگا، یہ بھی طے ہوا تھا اقلیت کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا، یہ بھی طے ہوا تھا یہ مملکت سبھی کے خوابوں کا جزیرہ ہوگا، یہ بھی طے ہوا تھا اپنے ملک میں اپنا راج ہوگا، یہ بھی طے ہا تھا اسلامی جمہوریہ مملکت پرسکون رہے گی، یہ بھی طے ہوا تھا تمام صوبوں کو ان کی قومیت کیساتھ احترام دیا جائے گا یہ بھی طے ہوا تھا پھر تمام رنگ و نسل ، مذہب و ملت اور اقلیت و اکثریت والے صرف اور صرف ایک قوم ہوں گے اور اس قوم کا نام ’’پاکستانی قوم‘‘ ہوگا ۔ یہ تو بہت اچھے سے اور جوش و ولولے سے طے ہوا تھا بلکہ پاکستان کے قومی نظریے کی بنیاد ہی اس نہج پر رکھی گئی تھی۔ خیر طے تو بہت کچھ ہوا تھا مگر کسی نے احترام کیا قائداعظم کے پرخلوص نظریات کا؟ کسی نے بھی نہیں!آج پاکستان کمزور ترین بزر گ کی طرح کھڑا ہے اپنے بچوں کی چھائوں اور ڈھال بن کر مگر کچھ بگڑے بچے اپنے بزرگ باپ کی چھائوں اور شفقت کو اسکے عزت و وقار جسے کبھی ہم بھول ہی جاتے ہیں کہ یہ لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا اس وطن کی قدروقیمت لوگ بھول چکے ہیں۔اس کلام کی طرح کہ خوب نقشہ کھینچا ہے اس ملک کا:
اے میری ارض وطن پھر تیری دہلیز پر میں
یوں نگوں سار کھڑا ہوں کوئی مجرم جیسے
آنکھ بے شک ہے برسے ہوئے بادل کیطرح
ذہن بے رنگ ہے اجڑا ہوا موسم جیسے
سانس لیتے ہوئے اس طرح لرز جاتا ہوں میں
اپنے ہی ظلم سے کانپ اٹھتا ظالم جیسے
جی ہاں اس ملک کی حالت اب ایسی ہی ہے کہ جو باضمیر ہیں وہ تو خود سے بھی آنکھ ملاتے ہوئے ڈرتے ہیں اور شرمندہ ہوتے ہیں مگر بے ضمیر اور بے حس چنداں فکر نہیں کر رہے اس ملک کی کہ ابھی یہ پیری بزرگی میں بھی اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو سکا اور ہم مزید خلفشار اور فتنہ و فساد برپا کرکے کیوں اسے غیر مستحکم کررہے ہیں ہم کیوں غیروں کو دکھا رہے ہیں کہ ہم بچے ہیں اور بچے بھی وہ جو سر پھرے ہوتے ہیں جنہیں اپنے والد بزرگوار اور انکی ٹھنڈی چھائوں کی کوئی پرواہ نہیں ان کے غیر مستحکم ہونے کی بھی پرواہ نہیں۔ الزام ہم ہر مرتبہ یہ دیتے ہیں کہ فلاں فلاں تنظیمیں اور ممالک پاکستان کی سالمیت کوخطرے میں ڈالتے ہیں۔ تو ملک کے پھر کرتا دھرتا کس مرض کی دوا ہیں جو ملک کے عدم استحکام اور آپس کی جارحیت کو نہیں روک پاتے ہم کیوں کسی کے ناپاک عزائم کو پنپنے دے رہے ہیں کیوں اپنے ہی بھائی بندوں کو سنبھلنے نہیں دے رہے۔ انتہاپسندی اپنے ہی لوگوں کو کیوں لپیٹ میں لیتی ہے۔ یہ اسلحہ، بم، چاقو چھرے اپنے ہی بھائیوں کیلئے کیوں ہیں؟۔ہزارہ برادری کے لوگ مسلسل جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ خوف سے ان کی زندگی رک سی گئی ہے۔ ان کی مالی مشکلات نے انہیں ملک بدری پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ گلہ شکوہ بھی اپنوں سے نہیں کرتے بلکہ انہیں ہیومن رائٹس کے پاس اپنے ساتھ گزرے حالات و واقعات لیکر جانا پڑتے ہیں۔ ان کے لئے کوئی تو اقدامات ہونا چاہئیں۔ اب ہم کسی کے ملک کے خراب حالات پر ان سے بحث بھی نہیں کر سکتے کہ وہ ہمیں شرمندہ کرتے ہیں کہ اپنے ملک کے فلاںفلاں شہر کے معصوموں اور مظلوموں کی خبر کیجئے۔ تم نے تو آزادی اپنا الگ وطن سنبھالنے کیلئے لی تھی کہ وہاں سب اچھا اچھا ہوگا ۔ کہیں تو کافرو مسلمانوں کی جنگ ہے تو کہیں یہودیوں اور مسلمانوں کی جنگ ہے۔ مگر پاکستان ایسا ملک ہے جہاں ایک ہی قوم پاکستانی اور ایک ہی قوم مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ فرض کیجئے پارہ چنارمیں اگر خون کسی زمینی تنازع پر بہہ رہا ہے تو کیوں؟ کیا وہ کوئی مقدس جگہ کا جھگڑا ہے۔ ایک تو زمینوں پر جھگڑے وہ بھی آپس میں ہوںسمجھ سے باہر ہیں کیونکہ ایک ہی قوم کی تو یہ زمینیں مشترکہ اور ملکیت ہیں ایک ہی طرح سے مٹی کی قبر میں سونے والے اور دفن ہونے والے کیسے اسے اتنا اہم سمجھ کر جھگڑ رہے ہیں۔ اس دھرتی کی مٹی کی قدر کیجئے وہ جس کیلئے ہم نے لاکھوں قربانیاں دیکر اسے حاصل کیا۔اس بزرگ وطن کی سالگرہ بس کچھ ہی دنوں میں آیا ہی چاہتی ہے تو دکھ اس بات پر ہوگا کہ یہ سالگرہ اپنوں کے ہاتھوں خود ہی ایک دوسرے کے قاتل و مقتول کے خون کیساتھ منائی جائے گی۔ ہزارہ ہو، پارہ چنار ہو یا پھر پاکستان کے دیگر بدامنی کی نذر شہر ہوں انہیں آپ تباہ و برباد کرکے کیوں کھنڈرات میں تبدیل کر رہے ہیں اور پھر انہیں کھنڈرات میں خون بہا کر اپنی لاشیں دفن کرو گے۔
یورپ سے سے مزید