کراچی میں پولیس کے ہاتھوں اغواء، بہیمانہ تشدد اور ساڑھے 5 لاکھ روپے تاوان وصولی کا شکار چاول کا تاجر حاجی شہزاد عباسی انصاف کے لیے بھٹک رہا ہے، عدالتی احکامات کے باوجود پولیس مقدمہ درج کرنے سے انکاری ہے۔
حاجی شہزاد عباسی کے مطابق ان کے ساتھ پولیس گردی کی واردات 6 جولائی کو قیوم آباد سی ایریا میں ہوئی تھی، وہ ماما ہوٹل کے قریب گاڑی میں اپنے ملازم کے ساتھ موجود تھے کہ قیوم آباد پولیس چوکی انچارج ملک ارشد اعوان، سابق ہیڈ محرر شبیر اور کاکا سپاہی نے دیگر 2 افراد کے ہمراہ انہیں اغواء کیا، اسلحے کے زور پر انہیں قیوم آباد پولیس چوکی لے جایا گیا، تاجر اور ان کے ملازم کو الگ کمروں میں بند کر دیا گیا۔
حاجی شہزاد کے مطابق کئی گھنٹوں تک مارپیٹ کی گئی، انہیں برہنہ کر کے تشدد کیا جاتا رہا، اہلکاروں نے رہائی کے لیے 10 لاکھ روپے طلب کیے۔
شہزاد کے مطابق ان کے پاس 55 ہزار روپے موجود تھے، 5 لاکھ روپے گھر سے منگوا کر دیے گئے جس کے لیے 2 پولیس اہلکار انہیں گھر کے قریب لے گئے اور ان کی اہلیہ کو فون کر کے 5 لاکھ روپے گھر سے منگوائے۔
حاجی شہزاد عباسی کے مطابق ان سے سادہ کاغذات پر دستخط بھی لیے گئے، کہا گیا کہ ہمارے خلاف کسی کو بتایا تو مقدمہ درج کر دیں گے۔
تاجر حاجی شہزاد نے بتایا ہے کہ رہائی کے بعد وہ ڈیفنس تھانے گئے، تاہم پولیس نے رپورٹ درج نہیں کی، جناح اسپتال سے میڈیکل کروایا، فریکچر کی رپورٹ موجود ہے، گاڑی میں ٹریکر موجود ہے جس سے تصدیق کی جا سکتی ہے، پولیس افسران نے بھی بات نہیں سنی تو عدالت چلا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت نے پولیس اہلکاروں کے خلاف زیرِ دفعہ 22 اے مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کیا مگر اس کے باوجود ڈیفنس پولیس مقدمہ درج نہیں کر رہی۔
تاجر شہزاد نے ’جنگ‘ کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے انہیں ملزم پولیس اہلکاروں سے صلح صفائی کرنے اور رقم واپس دلانے کی پیشکش کی جا رہی ہے، بصورت دیگر انہیں منشیات فروشوں کی جانب سے بھی دھمکیاں دلائی جا رہی ہیں۔
تاجر حاجی شہزاد نے آئی جی سندھ سے داد رسی کی اپیل کی ہے۔