پروفیسر خالد اقبال جیلانی
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام عقائد و عبادات اور معاملات میں معاشرتی نظم و ضبط، سماجی تنظیم اور اجتماعیت و اتحاد کا داعی ہے۔ اجتماعیت اور حسن معاشرت دین اسلام کا مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت کا حصہ بھی ہے۔ انسان اجتماعی معاشرے کے بغیر رہنا پسند نہیں کرتا اور معاشرہ اجتماعیت ہی سے وجود میں آتا ہے۔ جب معاشرہ وجودمیں آجاتا ہے تو سب سے زیادہ توجہ حسن معاشرت پر دی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ابتداء ہی سے انسانی وحدت، بھائی چارے اور اتحاد و اجتماعیت پر زور دیتا رہا ہے۔ اس کی تعلیمات ، اعمال و افعال اور عقائد و برتاؤ میں ہر جگہ وحدت و اتحاد، بھائی چارے اور اجتماعیت کا عنصر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ معاشرتی اجتماعیت اسلامی ضابطۂ حیات کی ترجمانی اور انسانی فطرت کی عکاس ہے۔
اسلام کی تمام تر عبادات میں اجتماعیت کا پہلو غالب نظر آتا ہے ۔ نماز ہو یا روزہ، حج ہو کہ جہاد، تمام عبادات اجتماعیت کا رنگ لئے ہوئے ہیں۔ پنج وقتہ نمازوں میں سے ہر نماز ایک مقررہ وقت پر ایمان والوں پر ایک ساتھ با جماعت فرض ہے، روزہ ایک مخصوص مہینے رمضان المبارک میں مقررہ اوقات میں اجتماعی طور پر فرض ہے، حج ایک خاص مقام ، ایک خاص مہینے اور مخصوص دنوں میں، حاجیوں پر ایک ساتھ تمام مناسک حج کی ادائیگی پر مشتمل ہے، یہی حال جہاد کا ہے۔
اسلا م کی تمام عبادات میں نماز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اللہ اوراس کے رسول ﷺنے تمام اعمال سے زیادہ نماز کی تاکید فرمائی ہے ۔ قرآن کی سات سو آیات میں اس کا ذکر ہے، کہیں اسے ایمان بتایا گیا ہے، کہیں اسے چھوڑنے پر سخت سزا کا اعلان ہے۔ کہیں اسے قائم کرنے پر اللہ کی مدد کا وعدہ ہے، کہیں ترکِ نماز کو قوموں کی بربادی قرار دیا گیا ہے۔
کہیں اسے ایمان اور کفر کی ’’ حد ‘‘ کہا گیا ہے، غرض کہ قرآن و حدیث میں سب سے زیادہ جس فرض کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، وہ صلوٰۃ (نماز) ہے۔ نماز میں اللہ کی بندگی کا حق ادا کرنا مقصود ہے، تاکہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا ہو، اس کی عظمت کا اظہار ہو اور اپنی لغزشوں سے توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ کا روحانی قرب حاصل ہو سکے۔ نماز انفرادی فلاح کی بعد جماعتی اور قومی سطح پر ایک مکمل نظام ہے۔
نماز انسانی زندگی کے تمام گوشوں ، شعبوں اور زاویوں پر محیط ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اجتماعیت کے فروغ میں ہر سطح پر دور رس اثرات مرتب کرتی ہے۔ نماز کے انہی اجتماعی فوائد کے پیش نظر ایمان والوں پر ’’ نماز باجماعت فرض‘‘ قرار دی گئی ہے۔ قرآن کریم میں اجتماعی طور پر نماز ادا کرنے کا حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے ’’نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کر و اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘۔ (سورۃ البقرہ ۴۳) اس آیت کریمہ میں دو جگہ نماز باجماعت کا حکم بڑی صراحت کے ساتھ دیا گیا ہے۔ ایک ’’اقیموالصلوٰ ۃ‘‘ (نماز قائم کرو)اور دوسری جگہ ’’وارکعوامع الراکین‘‘ (اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) ان دونوں مقامات پر ’’ صیغہ جمع امر‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔
آیت کے آخری حصے میں نماز کو ایک مقام یا ایک جگہ (مسجد)باہمی طور پر ادا کرنے کی تلقین زیادہ وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اقامت ِ صلوٰۃ کا مفہوم ،انفرادی سطح پر نہیں بلکہ اجتماعی و معاشرتی سطح پر ’’نظامِ صلوٰ ۃ ‘‘ کے نفاذ کا تقاضا کر رہا ہے ،کیونکہ انفرادی نماز کے مقابلے میں نماز با جماعت کا حکم نصّ قطعی سے ثابت ہے۔
نماز عبد اور معبود کے درمیان ایسے تعلق کی آئینہ دار ہے جو انتہائی قرب پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ امر جلوت کے مقابلے میں خلوت کی نماز کے پسندیدہ تر ہونے کا متقاضی تھا، لیکن عجیب بات ہے کہ حکم خدا وندی کی رو سے گوشۂ تنہائی میں ادا کردہ انفرادی نماز کے مقابلے میں باجماعت ادا کی ہوئی نماز بدرجہا اجرو فضیلت کی حامل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’ با جماعت نماز تنہا نماز کی نسبت ستائیس گنا زیادہ اجر و ثواب رکھتی ہے‘‘۔ (صحیح بخاری) معلوم ہوا کہ نماز باجماعت کی فضیلت بہت زیادہ ہے، حتیٰ کہ اگر دو نمازی ہی ہوں، تب بھی جماعت قائم کی جائے، ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی۔
نبی کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ’’ دو یا دو کے اوپر جماعت ہے‘‘ ( ابن ماجہ) نماز با جماعت کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس حدیث سے لگائیے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ جو اللہ کے لئے چالیس دن (متواتر) نماز با جماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ پائے، اس کے لئے دو آزادیا ں لکھ دی جاتی ہیں ، ایک آزادی دوزخ سے نجات اور دوسری نفاق سے برأت‘‘ ۔(ترمذی) ایک حدیث میں ہے کہ ’’ اگر تم منافقوں کی طرح بلا عذر مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی ﷺکی سنت کو چھوڑ بیٹھو گےاور اگر اپنے نبی ﷺکی سنت کو چھوڑو گے تو گمراہ ہو جائو گے‘‘۔ (صحیح مسلم)
بغیر عذر شرعی کاباجماعت نماز نہ پڑھنا یا جان بوجھ کر جماعت چھوڑنا منافقت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کو لئے سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ حضرت ابو ہریر ہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، میں نے ارادہ کیا، حکم دوں کہ لکڑیاں جمع کی جائیں ، پھر نماز کا حکم دوں اور اس کے لئے اذان دی جائے،پھر ایک شخص کو لوگوں کا امام مقرر کروں اور میں ان لوگوں کی طرف جائوں (جو نماز با جماعت کے لئے مسجد نہیں آتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ (بخاری و مسلم)
غور کیجیے کہ رحمۃ للعالمینﷺ نماز با جماعت کے لئے مسجدنا آنے والوں پر کس درجہ غضب ناک ہو رہے ہیں کہ ان کے گھروں کو آگ لگا دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے وہ صحابہ ؓجو نابینا یا چلنے پھرنے سے معذور تھے ،وہ بھی کسی کا ہاتھ پکڑ کر مسجد آتے اور با جماعت نماز ادا کرتے۔
ان احکام و ارشادات اور فضیلت و وعید کی روشنی میں ان لوگوں خصوصاََ نوجوانوں کو عبرت و موعظت حاصل کرنی چاہیے جو نماز تو پڑھتے ہیں مگر بغیر کسی عذر کے یا روزمرہ کے معمولی کاموں میں مصروفیت و مشغولیت کا بہانہ بنا کر جماعت کو چھوڑ دیتے ہیں یا گھر پر نماز پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنی سہولت و آسانی کے مطابق اپنی مرضی کے وقت پر بغیر جماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ آج کل نوجوانوں کا یہ وطیرہ بنتا جا رہا ہے کہ وہ نماز کے وقت موبائل، انٹر نیٹ یا سوشل میڈیا کے لہو و لعب میں مشغول و غرق رہتے ہیں اور دور جدید کے اس شیطان کے بہکاوے میں جماعت چھوڑ دیتے ہیں۔
یاد رکھیے کہ نماز با جماعت کا فلسفہ و حکمت معاشرتی اعتبار سے افراد ملت کو ایک مخصوص نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھالنے کا خواہش مند ہے، تا کہ اجتماعی سطح پر امت کی پوشیدہ اور سوئی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کیا جاسکے اور پورے مسلم معاشرے میں ایک کثیر الجہتی اور ہمہ گیر انقلاب برپا ہوسکے۔
اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب پورا معاشرتی ڈھانچہ تبدیلی سے آشنا ہو جائے گا تو معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی حالات یکسر خود بخود تبدیل ہو جائیں گے۔ جس کے نتیجے میں معاشرتی طور پر انسان کے رہن سہن کا انداز تبدیل ہو کر تہذیبی اور ثقافتی نظام کے بدلنے کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے نوجوانوں کو مختلف خود تراشیدہ حیلے بہانوں سے اپنی پناہ عطا کرتے ہوئے نمازبا جماعت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)