تفہیم المسائل
سوال: ایک زیر تعمیر مسجد کے تمام انتظامات مسجد کے امام صاحب دیکھا کرتے تھے ، اس وقت کوئی انتظامی کمیٹی نہیں تھی ، اس وقت انھوں نے کچھ مسجد کا ناقابلِ استعمال سامان فروخت کرکے رقم مسجد کی تعمیر میں لگادی، اسی طرح کسی نمازی نے منبر کے لیے پچاس ہزار روپے دیے ، لیکن ایک دوسرے شخص نے منبر بنوادیا ، امام صاحب نے پہلے شخص سے اُس کی رقم کے بارے میں اجازت لے کروہ مسجد کی تعمیر میں صرف کردی ، ختم قرآن کی مد میں پندرہ ہزار روپے بچے ہوئے تھے ، شرعی اجازت کے بغیر مسجد کی تعمیر میں لگادیئے ، اس بارے میں شرعی حکم کیاہے ؟،(ظفرعلی ، کراچی)
جواب: مسجد کا پرانا اور ناقابلِ استعمال سامان فروخت کرکے اُس رقم کو مسجد کے دیگر مصارف میں صرف کردیاجائے ، شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے ، علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ فتاویٰ نسفی میں ہے: شیخ الاسلام سے پوچھا گیا: ایک گاؤں کے لوگ اِدھر اُدھر ہوگئے (یعنی وہ گاؤں ویران ہوگیا) اور وہاں کی مسجد منہدم ہونے کو آگئی اور کچھ دادا گیر قسم کے لوگوں نے مسجد کی لکڑیاں( سامان وغیرہ) اٹھا کر لے جانا شروع کردیا، توکیا گاؤں میں کسی کویہ اختیار ہے کہ قاضی کی اجازت سے لکڑیاں فروخت کردے اور اس کی قیمت کو اس غرض سے محفوظ رکھے کہ کسی دوسری مسجد یا اسی مسجد میں صرف کرے(جیساکہ موقع کا تقاضا ہو) ، تو شیخ الاسلام نے جواب میں کہا: ہاں ! ، ’’محیط ‘‘ میں اسی طرح ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد 2،ص:478)‘‘ ۔
مساجد کے انتظامی امور کے لیے کمیٹیاں ہوتی ہیں ، تاہم اگر کسی مسجد میں امام مسجد ہی مُتولّی کے طورپرانتظامات بھی سنبھالتے رہے ہوں توکوئی حرج نہیں البتہ حسابات درست رکھنا لازم ہے ۔ منبر کے لیے دی جانے والی رقم (پچاس ہزار روپے) چونکہ مخصوص تھی منبر کی تعمیر کے لیے ، لہٰذا رقم عطیہ کرنے والے شخص سے امام صاحب نے دوسرے مصرف میں صرف کرنے کی اجازت لے لی ،تو یہ درست ہوگیا، کیونکہ اگر عطیہ دہندہ نے کسی خاص مقصد کے لیے عطیہ دیاہے، تو وہ عطیہ کسی دوسرے مقصد میں استعمال کرناجائز نہیں ہے ،لیکن چونکہ مسجد کا منبر کسی دوسرے شخص نے بنا دیا تھا اور امام صاحب نے عطیہ دہندہ کی اجازت سے وہ رقم مسجد کے مفاد ہی میں دوسرے مقصد پر صرف کردی تو یہ جائز ہے، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ فقہائے کرام نے صراحت فرمائی ہے کہ وقف کرنے والوں کے مقصد(ومصرف) کی رعایت کرنا واجب ہے ،(حاشیہ ابن عابدین شامی،جلد 4،ص:445)‘‘۔
ختمِ قرآن سے بچنے والے پندرہ ہزار روپے اگر امام صاحب نے عطیہ دہندگان کی اجازت کے بغیر صرف کیے ، تویہ جائز نہیں ، اس رقم کا تاوان دینا ہوگا اور آئندہ اس طرح کے کسی اقدام سے پہلے عطیہ دہندگان سے عمومی طورپر اجازت لے لینی چاہیے ،جبکہ تعیین کے ساتھ چندہ دینے والے کے نام معلوم نہ ہوں۔ (واللہ اعلم بالصواب)