نئی دہلی (اے ایف پی ) بنگلہ دیش میں اتحادی شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ بھارت کے لیے بڑا سفارتی دھچکا اورمخمصہ ہے ۔ آمرانہ حسینہ حکومت کے خلاف پر تو بنگلہ دیش میں ہفتے بھر سے جشن کا سلسلہ جاری ہے ۔ لیکن بھارت جس نے وہاں اسلامی تشخص کی حامل متبادل حکومت اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنے کےلیے حسینہ واجد حکومت کی پشت پناہی کی تھی ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 76سالہ حسینہ واجد کی عوامی لیگ حکومت کا خاتمہ بھارت کےلیے مشکل صورتحال کا باعث ہے ۔ بنگلہ دیش معتوب وزیراعظم کو طلبہ تحریک کے نتیجے میں عجلت کے ساتھ فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعہ ملک سے فرار ہونا پڑا تھا ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سابق حکمراں حسینہ واجد اور ان کے والد مرحوم شیخ مجیب الرحمن سے تاریخی تعلق کا باوجود بنگلہ دیش میں قائم نئی عبوری حکومت کے سر براہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو نیک تمنا ؤں کا پیغام بھیجا ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی بنگلہ دیش میں نئی قیادت سے کوئی محاذ آرائی نہیں چاہتے ۔ گزشتہ جمعرات کو محمد یونس کے عبوری سر براہ حکومت کا حلف اٹھانے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ بھارت نئی بنگلہ دیشی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا پابند ہے تا ہم چین نے بھی فوری طور پر بنگلہ دیش میں یونس شرکا ء کا خیر مقدم کیا ہے چین کا کہنا ہے کہ وہ بنگلہ دیش سے تعلقات کو نہایت اہمیت دیتا ہے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے حریفوں کے بر سر اقتدار آنے کے بعد پرانی حکومت کی قبل ازیں حمایت بھارت کو کاٹ کھارہی ہے ۔ بنگلہ دیشیوں کے نقطہ نظر کے مطابق بھارت نے گزشتہ دو برسوں سے بنگلہ دیش میں ہوا کے رخ کا اندازہ نہیں لگایا ۔ یہ بات انٹر نیشنل کرائسزگروپ کے تجزیہ کار تھا مس کین نے کہی ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی قطعی نہیں چاہتا تھا ۔ بر سوں پہلے ہی بھارت نے واضح کردیا تھا اس کے پاس حسینہ واجد کا کوئی متبادل نہیں ہے ۔