آج کل ہر چیز کی غلط تو جیہہ پیش کی جا رہی ہے جیسے کہ حضور پاک ﷺ اور حضرت سیدہ خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہا کی شادی کو موجودہ دور کی لو میرج اور کورٹ میرج سے تشبیہ دے کر نبی الزمان محمد مصطفیٰ ﷺ اور ام المئومنین حضرت خدیجہ کبریٰ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کی گئی اور مسلم امہ کے جذبات کو گہری ٹھیس پہنچائی گئی۔جید علما نے بیک زبان توجیہہ کی شدید مذمت کی۔غلطی پہ معافی مانگ لینا اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہوتا ہے۔گناہ سرزد ہو جائے تو توبہ کرنے سے اللہ تبارک و تعالیٰ بھی معاف فرما دیتے ہیں۔ لیکن بعض لوگ اپنی غلطی کو نہ تو غلطی تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں اور نہ ہی اس پر ندامت محسوس کرتے ہیں۔ نوجوان نسل کو بنیادی حقوق کے نام پر بے راہروی کی ترغیب دے کر ماں باپ کے خلاف اکسایا جا رہا ہے۔اور بعد میں کئی لوگ حضرت خدیجہ کبریٰ کے بارے میں اپنی علمی استعداد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پہلے نقطہ نظر کو صحیح ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں لگے رہے۔ جو کچھ لکھا گیا وہ تو علمائے کرام اور ہر مسلمان کا موقف ہے۔ جس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔میڈیا کے کئی لوگوں نے حضرت سیدہ خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو دل سے رول ماڈل سمجھاور قرآن پاک میں درج احکام الٰہی پر ایمان رکھا، تو اللہ تبارک تعالیٰ نے ان کو اتنے بڑے پلیٹ فارم عطا کئے ہیں ۔ وہ حضرت سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، حضرت سیدہ فاطمتہ الزہرہ رضی اللہ عنہا ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دوسری امہات المو منین کی حیات طیبہ اور اسوئہ حسنہ کی مثالیں پیش کر کے قوم کا کردار بدلنے میں نمایاں رول ادا کر سکتے ہیں ، لیکن افسوس کہ اس کے برعکس وہ مغرب کے حامیوں ملالہ،شرمین عبید چنائے اور عاصمہ جہانگیر کو اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنی قلم اور زبان پر بڑا گھمنڈ ہے۔ ہم انکی قلم،زبان اورعلمی استعداد کے یقیناًمعترف ہیں۔ لیکن جب کسی عالم کا علم مثبت پہلو کی بجائے منفی رخ اختیار کر جائے تو وہ انسانیت کا دشمن بن جاتا ہے جو کہ معاشرہ کے لئے سوہان روح ثابت ہو تا ہے۔ علم کی معراج یہ ہے کہ قاری، گھونگوں میں سے موتی تلاش کرے نہ کہ موتیوں کو دنیا کے سامنے گھونگے بنا کر پیش کرے۔ اپنے علم اور مطالعہ کا زعم رکھنے والے لوگوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ علم تو احمد رشدی کے پاس بھی بہت تھا۔ علم تو مرزا غلام احمد کے پاس بھی کسی سے کم نہ تھا۔مانتے ہیں میڈیا کے ان لوگوں کا مطالعہ بہت وسیع ہو گا ،ان مصنفین کو بھی پڑھا ہو گا : William Draper, Prof. Hitty, Sir James Jeans Dozy, Sir Denison Ross, H.M.K. Shairani Gaer, A.C. Bouquet, Professor Margoliouth, Joseph, Professor H.A.R. Gibb, Carlyle, Arther Jaffery, George Sale, Rod well, E.G. Palmer, r. Watt, Sir William Munir, Prof. Cark, Dr. Joseph Schacht, Edward A. Ferman, Arnold Toynbee, A.J. Arberry, Dr. Wilfred C. Smith Prof. Brockelmann, Alfred Guillaume, J.M. Rod well, A.S. Tritton, Dr. Joseph, Manfred helpern, Vera Michales Deen, جنہوں نے اپنی تحریروں میں اسلام ، قرآن پاک اور عرب کی تاریخ کو توڑ مرو ڑ کر پیش کیا۔یہ لوگ مطالعہ کی بات نہ کریں ۔ نہ ہی اپنے علم کی کریں،ہمارا اور ان کا علم شرعی قوانین کے بارے میں بہت محدود ہے۔ مستند علما کرام سے راہنمائی حاصل کریں اور اسکی روشنی میں قرآن اور حدیث کے مطابق اس پر عمل کی بات کریں۔ ہم مانتے ہیں کہ میڈیا کے ان لوگوں نے حضرت سیدہ خدیجۃالکبریٰ رضی اللہ عنہا، حضرت سیدہ فاطمتہ الزہرہ رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر امہات المو منین کی تعلیمات اور انکی عملی زندگی کا بھی مطالعہ کیا ہو گا، لیکن افسوس کہ وہ محرم اور غیر محرم کے مفہوم سے بھی نابلد ہیں۔ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اسلامی تاریخ میں کہیں بھی نعوذباللہ ایسی کوئی مثال موجود ہے، جس میں والدین کی اطاعت کے منافی ناجائز تعلقات کو عملی جامہ پہنانے کے بعد شادی کو پسندیدہ اور جائز قرار دیا گیا ہو ؟علمی بحث سے ہٹ کر اس بات ہی کا جواب دیں، کہ کیا شادی سے پہلے نوجوان لڑکیوں کو کسی غیر محرم لڑکے سے تعلقات استوار کرنا، اس سے جنسی روابط رکھنا اور پھر اس سے شادی کرنے کیلئے ماں باپ کی اطاعت کی بجائے ان کے خلاف بغاوت کرنا، اسلام میں د ئیے گئے، مرضی سے شادی کرنے کے اصول یا حق سے مطابقت رکھتا ہے؟ سینئر کالم نگار نوید مسعودہاشمی نے اپنے کالم میں خوبصورت بات کہی ہے۔ "ہم سب گنہگار ہیں ،بیٹیوں اور بہنوں والے ہیں، اللہ سب کی عزتوں کو سلامت رکھے، امہات المومنین اور صحابیات رسول ﷺ کی مثال اچھائی کے ساتھ دینی چاہیئے نہ کہ برائی کے ساتھ۔ ماں باپ کی نافرمانی کر کے گھروں سے بھاگ کر فلمی سٹائل میں شادیاں رچانا اچھائی نہیں برائی ہے۔ رد عمل میںایسا کرنے والی لڑکیوں یا لڑکوں کو قتل کرنا یا زندہ جلانا بھی برائی اور درندگی ہے"۔ ہمارے میڈیا کے لوگ ہاشمی صاحب کی باتوں سے سبق سیکھیں، دوسروں کی بیٹیوں کو بھی اپنی بیٹیاں سمجھیں ، میںان سے یہ پوچھتا ہوں کہ خدانخواستہ کیا آپ اپنی بیٹی کے شادی سے پہلے کسی غیر مرد سے تعلقات کو برداشت کریں گے؟ اور اگر وہ آپ کا گھریلو ملازم یا شادی شدہ ڈرائیور ہوا توکیا آپ اس سے شادی کی اجازت بھی دے دیں گے؟ یہ موضوع تفصیل طلب ہے، اس پر ایک ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے جو کہ نبی پاکﷺ کی احکام کی روشنی میں مشعل راہ ہے۔ اس موضوع پر پھر کسی وقت عرض کروں گا۔یاد رکھیں،شادی میں مرضی کا شامل ہونا اور شادی سے پہلے ناجائز تعلقات قائم کر کے والدین سے بغاوت کر کے محبت کی شادی رچانے میں نمایاں فرق ہے۔ہمارے میڈیا کے بعض لوگوں جیسے اسلام دوست ہوں تو اسلام کے دشمنوں یا یہود و نصاریٰ کی کیا ضرورت ۔ خدا را ہوش کے ناخن لیں۔ فارن فنڈڈ این جی اوز کے لائی لگ نہ بنیںاور مغرب اور بھارت کی تہذیب کی پشت پناہی سے بچیں۔