• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

بظاہر طلبہ تحریک کوٹہ سسٹم کے خلاف تھی جس میں ’’مکتی باہنی‘‘ سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کیلئے سرکاری ملازمتوں میں 30فیصد تک کوٹہ مقرر کیا گیا تھا، شیخ حسینہ واجد کے خلاف لاوہ پھٹ چکا تھا جسے مصنوعی اقدامات سے روکنا ممکن نہ رہا۔ شیخ حسینہ واجد اس غیر منصفانہ کوٹہ کی مخالفت کرنے والوں کو طنزیہ ’’رضا کار‘‘ کہہ کر اپنی نفرت کا اظہار کرتی تھیں ۔ 1971ء میں’’مکتی باہنی اور ہندوستانی فوج‘‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کا ساتھ دینے والے البدر اور الشمس کے کارکنوں کو رضاکار کہہ کر ٹارگٹ بنایا جاتا تھا۔ لہذاشیخ حسینہ واجد کی 14جولائی 2024کی اس تقریر نے پورے ملک میں آگ لگا دی جس میں انہوں نے ایجی ٹیشن کرنے والوں ’’رضا کار‘‘ کا طعنہ دیا تھا پھر ان ہی ’’رضا کاروں ‘‘نے حسینہ واجد سے ’’تخت ڈھا کہ‘‘چھین لیا ۔ گلی گلی، کوچے کوچے میں نوجوان طلبہ و طالبات کی زبان پر ایک ہی نعرہ ان کی شناخت بن گیا’’تم کون رضا کار (پاکستانی) ہم کون رضا کار (پاکستانی) ہم سب رضاکار (پاکستانی) رضا کار زندہ باد۔ 30لاکھ بے روز گار بنگالی نوجوانوں نے حسینہ واجد کو نہ صرف اقتدار سے محروم کر دیا بلکہ ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا انہیں الوداعی تقریر تک کرنے کا موقع نہیں دیاگیا۔بنگالیوں کی زبان پر ’’پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الااللہ‘‘ کا نعرہ اس دو قومی نظریے کا احیا ہی ہے جس بارے میں ہندوستانی قیادت یہ کہا کرتی تھی دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا ہے۔ آج وہ بنگلہ دیش میں بچے بچے کی زبان پر ہے بنگلہ دیش کی سیاست ’’پرو پاکستان ، اسلام پسند عناصر‘‘ اور ’’پرو انڈیا سیکولر عناصر ‘‘میں بٹی ہوئی ہے۔ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹریونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ امریکہ نے حسینہ واجد کا ویزا منسوخ کر دیا، جب کہ برطانیہ نے حسینہ واجد کو سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا۔اقتدار چھن جانے کے بعد حسینہ واجد کیلئے دنیا نے اپنے دروازے بند کر دئیے ہیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق شیخ حسینہ واجد نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کے ایک جزیرے کا کنٹرول نہ دینے پر امریکہ نے ان کا اقتدار ختم کرایا ۔ شاید ایک وجہ یہ بھی ہے، ان کا بھارت اور چین کی طرف ضرورت سے زائد جھکائو تھا ،مغربی ممالک ان کی پالیسیوں سے نالاں تھے ۔ اس لئے مشکل وقت میں ان ممالک نے بھی نظریں پھیر لی ہیں ۔شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمہ سے جہاں بیگم ضیا الرحمن کی رہائی ہو گئی وہاں پروفیسر غلام اعظم کے صاحبزادے بریگیڈئیر جنرل اعظم جنہیں 2016میں پروفیسر غلام اعظم کا بیٹا ہونے کے جرم میں اٹھا لیا گیا تھا۔ جس نے عقوبت خانے میں سالہا سال سورج کی روشنی نہیں دیکھی ،ان کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سویپ کر جائیں گی بنگلہ دیش میں دائیں جماعتوں کے برسر اقتدار آنے سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بہتر تعلقات کار قائم ہوں گے۔ بنگلہ دیش میں صرف رجیم ہی تبدیل نہیں ہوا بلکہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز افسران کو برطرف کیا جا رہاہے۔ ا نٹیلی جنس چیف کو برطرف کر دیا گیا ہے ۔ڈاکٹر محمد یونس نے کہا ہے کہ حسینہ واجد نے جعلی الیکشن کے ذریعے دو تہائی نوجوانوں کو ووٹنگ سے محروم رکھا انہوں نے کہا حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمہ سے کرپشن اور بد عنوانی کے دور سے جان چھوٹ گئی ہےاس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کی صنعت سے جہاں اس کے زرمبادلہ کے ذخائر50بلین ڈالر سے تجاوز کر گئے وہاں بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی پاکستان سے تجاوز کر گئی لیکن اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پائے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش آج بھی خطے کے ممالک میں غربت و افلاس میں نمایاں ہے۔ بھارت نے بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنا رکھا تھا اس کی دفاعی ذمہ داریاں بھی خود اٹھا رکھی تھیں۔فوج کی طرف سے مظاہرین پرگولی چلانے سے انکار حسینہ واجد کی بھارت نواز پالیسیوں سے فوج کا اظہار نفرت تھا ۔سقوط ڈھاکہ پر سینکڑوں کتب لکھی گئی ہیں بعض کتب میں حقائق بیان کئے گئے ہیں جبکہ کچھ کتب میں تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے ۔ اب تک مورخ اس بات کا تعین نہیں کر سکا کہ شیخ مجیب الرحمن غدار تھا یامحب وطن ۔میں نے فروری1969ء میں گول میز کانفرنس کے موقع پر ’’مشرقی پاکستان ہائوس‘‘ میں شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کی تھی انہیں اپنے جذبات سے آگاہ کیامگر وہ6نکات سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ تھے۔ انہیں اپوزیشن (ڈیمو کریٹک کمیٹی) کے مطالبہ پر اگرتلہ کیس میں رہا کر کے راولپنڈی میں ہونے والی ’’گول میز کانفرنس‘‘ میں لایا گیا تھا۔ میں نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں قائم ہونے والے ’’حمود االرحمن کمیشن ‘‘ کی رپورٹ بھی پڑھی اور اخبار کے لئے رپورٹ کی ہے۔ اس رپورٹ کو صرف عسکری شکست تک محدود رکھا گیا ہے اور سیاسی شکست کا کہیں بھی ذکر نہیں۔ کاش مجیب 6 نکات پر مصر نہ ہوتے اور متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم بن جاتے اور ذوالفقار علی بھٹو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے آمادہ ہو جاتے تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا ۔ ابولحسین اسلامی چھاترو شنگو کے لیڈر تھے البدر کے کمانڈر کی حیثیت سے جنگی قیدی بنا لئے گئے ۔رہائی کے بعد انہوں نےبنگلہ دیش جانے سے انکار کر دیا اور پوری زندگی پاکستان میں گزار دی۔ وہ ہر سال 16دسمبر کو’’ یوم سقوط ڈھاکا‘‘ مناتے ۔ راجہ تری دیو رائے کئی قبائل کے بے تاج بادشاہ تھے جہاں سے وہ1971ء کے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے ۔ بچوں کے اصرار کے باوجود بنگلہ دیش واپس نہ گئے، محمود علی نے بنگلہ دیش کی شہریت قبول نہ کی اور پاکستانی کی حیثیت سے مرنا پسند کیا۔

تازہ ترین