آج پاکستان کو مجموعی طور پر 9.8کھرب روپے کا قرضہ ادا کرنا ہے جو ایک سال پہلے7.3کھرب روپے تھا۔ یاد رہے کہ قرض کی یہ رقم سالانہ حکومتی ریونیو کے برابر ہے ،جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ باقی تمام اخراجات کیلئے ہمیں مسلسل ادھا رلینا پڑے گا۔مالیاتی ذمہ داری اور قرض حد بندی ایکٹ 2005ء کے مطابق پاکستان اپنی جی ڈی پی کے 60فیصد سے زیادہ قرضہ نہیں لے سکتا لیکن جون 2024ء تک یہ قرضہ 74.3فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ آج پاکستان کے ٹوٹل ریونیو کا ایک تہائی حصہ انکم ٹیکس کی مد میں حاصل ہوتا ہے جبکہ زراعت سے سب سے کم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جن میں 90فیصد جاگیردار جنکی زمین 12.5ایکٹر سے کم ہیں، ان سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا۔ اسکے علاوہ رئیل اسٹیٹ سے بھی بہت کم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے حکومت ریونیو کو بڑھانے کیلئے ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کو فوری طور پر 13فیصد تک لے جائے اور جس کو بعد میں بڑھا کر 18فیصد تک لے جانا ہو گا۔ پاکستان میں اس وقت سرکاری تحویل میں 210انٹرپرائزز ہیں جن میں سر فہرست 14صنعتوں کا سالانہ خسارہ 458ارب روپے ہے جس کی پرفارمنس بڑھانے کیلئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ انہیں پبلک- پرائیویٹ پارٹنر شپ میں دے دیا جائے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس سال کےماہ جولائی میں ترسیلات زر میں 48فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے ترسیلات زر بڑھانے کیلئے ڈیجیٹلائز کرنے کا ایک اہم اعلان کیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ دوسری طرف ایکسچینج ریٹ میں کمی کی وجہ سے درآمدات کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے 2023-24میں تجارتی خسارہ 13.9بلین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ جن ممالک میں تجارت آگے نہ بڑھ رہی ہو اور بیرونی سرمایہ کاری بھی نہ ہو رہی ہو، ان ممالک میں قرضہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کی ایک وجہ تو سیاسی عدم استحکام ہے لیکن یاد رہے کہ 2008ء تک ہماری معیشت کو کوئی پروٹیکشن حاصل نہ تھا لیکن اس کے بعد کسٹم ڈیوٹیز اور دوسری ریگولیٹری ڈیوٹیز لگا کر پاکستانی صنعتوں کو سہولیات دی گئیں جس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ 2022ء میں صرف ٹیرف کی مد میں، جو کہ صرف درآمدات کی مد میں لیا جاتا ہے، وہ پاکستان کے تمام ٹیکسز کی وصولی کا 48فیصد تھا۔ یوں آج دنیا کے 70ممالک جو برآمدات کرتے ہیں، ان میں پاکستان کا اوسط ٹیرف 12.7فیصد ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ ٹیرف جنوبی ایشیا میں 5.9فیصد، آسیان میں 2.5فیصد، چین میں 3.8فیصد اور ہندوستان میں 5.8فیصد ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات آگے نہ بڑھ سکیں۔ آج ہماری برآمدات کا صرف 58فیصد ٹیکسٹائل اور کاٹن کی صنعت کا مرہون منت ہے لیکن بجلی کی قیمتیں روز بروز بڑھنے کی وجہ سے یہ شعبہ مسابقتی نہیں رہا۔ یاد رہے کہ نواز شریف کے دوسرے دور میں ہندوستان سے بجلی برآمد کرنے کا معاہدہ تقریباً پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تھا جس سے آج ہماری صنعتیں مستفید ہو رہی ہوتیں۔ ان حالات میں جبکہ مقامی مینو فیکچرنگ علاقائی ممالک سے مسابقتی نہیں رہی تو ہمارے پاس صرف ایک ہی آپشن بچتا ہے کہ علاقائی تعاون کو آگے بڑھایا جائے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں مقیم بھارتی ناظم الامور نے لاہور میں سینئر صحافیوں اور چیمبر آف کامرس کے عہدیداران سے بات کرتے ہوئے مثال دی تھی کہ پاکستان میں پیاز کی قیمت300روپے فی کلو ہے جبکہ نئی دہلی میں اس وقت یہی پیاز 20روپے فی کلو فروخت ہو رہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے کبھی پاکستان کے ساتھ تجارت ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان اپنی درآمدات پر صرف جنوبی ایشیا سے آنے والے تجارتی مال پر 10فیصد ڈیوٹی کم کر دے تو اس سے علاقائی تجارت 32فیصد آگے بڑھ سکتی ہے۔اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان، ہندوستان کے ساتھ مکمل طور پر دو طرفہ تجارت کو بحال کر دے تو پاکستان کی برآمدات میں 80فیصد اضافہ ہو سکتا ہے جو کہ تقریبا ~25بلین ڈالرز ہونگے۔ واضح رہے کہ ہندوستان اور چین شدید سرحدی تنازعات کے باوجود 120بلین ڈالرز سے زائد کی تجارت کر رہے ہیں جس کا فائدہ چین کو ہو رہا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ وہ کیا وجہ ہے کہ بھارت امریکی کیمپ میں ہونے کے باوجود چین سے خسارے کی تجارت کر رہا ہے۔ دوسری طرف چین اور امریکہ دنیا میں اپنے تسلط کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس سلسلے میں انکے درمیان تناؤ روز بروز بڑھ رہا ہے لیکن آج بھی امریکہ اور چین ایک دوسرے کے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں۔ جبکہ پاکستان، ہندوستان سے اپنی درآمدات بذریعہ دبئی کر رہا ہے اور جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں ہمارے وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہندوستان سے تعلقات اور تجارت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی زیر غور نہیں ہے۔ لیکن دوسری طرف ارشد ندیم کی والدہ رضیہ پروین نے اپنے بیٹے کے المپکس 2024میں سونے کا تمغہ جیتنے پر یہ کہہ کر دونوں ممالک کے لوگوں کے دل جیت لیے کہ نیرج چوپڑہ بھی جو کہ ارشد ندیم کا دوست ہے، میرے بیٹوں کی طرح ہے اور میں اسکی کامیابی کیلئے بھی مسلسل دعا گو تھی۔ نیرج چوپڑہ اور ارشد ندیم کی ماؤں کے یہ خیالات پوری دنیا کے میڈیا کی زینت بنے رہے جس سے امن و آشتی کی ایک موہوم سی کرن پھوٹی ہے اور اگر یہ یہی امن و آشتی کی روایات آگے بڑھتی رہیں تو اس خطے کے کروڑوں عوام غربت و افلاس سے باہر نکل سکتے ہیں۔
ان عوامل اور اپنی غیر معمولی معاشی زبوں حالی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی 77سالہ عداوتوں کو بھول کر آنے والی نسلوں کیلئے امن و آشتی کی فضا کو بحال کرنا ہو گا۔ کسی بھی ملک کی قومی سلامتی کا انحصار اسکے عوام کی صحت، تعلیم، مجموعی خوشحالی اور سیاسی شعور پر ہوتا ہے ناکہ اسلحے کے انباروں پر۔ ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی ہوگی کہ یورپین قوموں نے بھی دو عظیم جنگوں میں ہونے والی ہولناک تباہیوں کے باوجود آپس میں ایسی امن و آشتی کی فضا پیدا کی کہ جس سے انکے درمیان سرحدیں ہی ختم ہو گئیں اور ان ممالک نے دنیا کو جدید فلاحی ریاستوں کا انمول نمونہ بھی پیش کیا۔ آج ہمیں بھی یہ سوچنا ہوگا کہ ہم وراثت میں ملی اس سرزمین پر کس طرح امن، آشتی اور خوشحالی کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں چونکہ نفرت اور جنگ ہمیں کسی بھی منزل پر نہیں پہنچا سکتیں۔